مرکز کے زیر انتظام ریاست جموں و کشمیر کے پہاڑی ضلع ڈوڈہ میں سرکاری سکولوں کی حالت دن بدن بد سے بدترین ہوتی جارہی ہے۔
سکولز میں بنیادی ڈھانچے کا فقدان ہے اور پہاڑی علاقوں میں درجنوں کی تعداد میں ایسی عمارتیں موجود ہیں جہاں تیز آندھی اور برفباری کی وجہ سے اُن کے چھتیں اُڑ گئے ہیں۔
عالمی وبا کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا شُدہ صورتحال سے پورے ملک میں تعلیمی اِداروں کو ہنوز بند رکھا گیا ہے۔ ایسے میں سرکاری سکولز کی عمارتوں کو مرمت کرنے و دیگر بنیادی سہولیات کو فراہم کرنے کے لیے انتظامیہ کے پاس بہتر موقع تھا، لیکن انتظامیہ ایسا کرنے میں مکمل طور ناکام ہوچُکی ہے اور متعلقہ حکام بھی بنیادی سہولیت کی فراہمی پر توجہ نہیں دے رہے ہیں۔
آندھی طوفان اور برفباری سے متاثر سکولی عمارتوں میں سے ایک عمارت تعلیمی زون بھاگواہ کے تحت آنے والا لور ہائی سکول منجمی کی بھی ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق سنہ 2005 میں جب ضلع ڈوڈہ کے شہر و گام میں بھاری برفباری ہوئی تھی تو منجمی جہاں ہر برس چار سے پانچ فِٹ برفباری ہوتی ہے اُس سال کئی فِٹ زیادہ برفباری سے سکول کی چھٹ مکمل طور تباہ ہو گئی تھی۔
لور ہائی سکول منجمی میں آج دس جماعتوں کا درس و تدریس کا عمل صرف دو کمروں میں چلتا ہے، اور ایک کمرے میں سکول کا آفس اور اسی میں سکول کے سامان رکھے ہوئے ہیں۔
پندرہ برس گزر جانے کے بعد بھی محکمہ تعلیم کو کوئی اثر نہیں ہوا جبکہ عوام کی طرف سے متعدد بار سکول کی مرمت کی مانگ کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔
پنچایت منجمی کے سرپنچ عبدالطیف نیائیک نے بتایا کہ آج سے پندرہ برس قبل مذکورہ سکول میں بچّوں کے بیٹھنے کے لیے معقول انتظامات تھے لیکن بھاری برفباری نے سنہ 2005 میں سکول کی چھت کو ہی تباہ کردیا، اس وقت سے یہ عمارت کھنڈرات میں تبدیل ہو گئی ہے سکول تو نام کا چلتا ہے لیکن زیر تعلیم بچّوں کو تپتی ہوئی دھوپ اور سردیوں میں خون کو منجمند کرنے والی ٹھنڈ سے شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس حوالے سے اُنہوں نے اعلیٰ حکام تک بات کو پہنچایا اور اپیل کی کہ عوامی مفاد میں سکول کی مرمت کی جائے لیکن کہیں بھی اُن کی سنوائی نہیں ہوئی۔
مختلف حکومتوں نے بھی اِس جانب کوئی توجہ نہیں دیا اور ارباب اقتدار میں بیٹھے مقامی نمائندوں نے اپنے ہی علاقے کے لوگوں کی مانگ کو نظر انداز کردیا۔
مقامی لوگوں نے بتایا کہ سکول میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے جس وجہ سے وہ اپنے بچّوں کا مستقبل خطرے میں دیکھ رہے ہیں،
دو کمرے دس کلاسز کے اساتذہ کو آرام کرنے کے لیے تو ٹھیک ہوسکتے ہیں لیکن درس و تدریس کے لیے یہ ناکافی ہیں۔ اس سے بچّوں کی تعلیم شدید متاثر ہو رہی ہے۔
سرپنچ نے بتایا کہ وہ نا امید ہوگئے ہیں اور صرف ریاستی لفٹینٹ گورنر منوج سنہا سے امید رکھتے ہیں کہ وہ غریب عوام کی مشکلات کا ازالہ کریں گے۔