وادیٔ کشمیر کی موجودہ صورتحال کے سبب نند رِیشی کے نام سے مشہور حضرت شیخ نورالدین ولی کے سالانہ عرس میں اس سال عقیدت مندوں کی تعداد بہت ہی کم دیکھنے کو ملی۔
شیخ نورالدین ولی کی درگاہ میں سال بھر عقیدت مندوں کا تانتا بندھا رہتا ہے لیکن عرس کے موقع پر یہ تعداد لاکھوں میں چلی جاتی ہے۔
اس برس تاہم انتہائی قلیل تعداد میں زائرین عرس میں شرکت کیلئے چرار قصبے میں وارد ہوئے لیکن یہان پہنچنے کے بعد بھی حکام نے انہیں درگاہ میں حاضری دینے کی راہ میں روڑے اٹکائے۔
سرینگر کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے عقیدت مندوں کے ایک گروپ نے نامہ نگاروں کو کہا کہ پولیس نے تقریبات کا آغاز ہونے سے ایک دن قبل ہی چرار شریف علاقے کو سیل کردیا تھا۔
ایک عقیدت مند نے کہا کہ وہ کسی طرح چرار شریف پہنچ گئے تھے لیکن وہاں موجود پولیس اہلکاروں نے واپس لوٹنے کو کہا اور درگاہ کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی۔
شیخ نورالدین ولی کی درگاہ کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ یہ درگاہ مئی 1995میں ایک ہولناک آگ کی نذر ہوگئی تھی جس میں صدیوں پرانی سابق درگاہ عمارت اور اس کے قرب و جوار میں سینکڑوں رہائشی مکانات راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے تھے۔
حکام کہتے ہیں کہ یہ آگ ایک غیر ملکی عسکریت پسند میجر مست گل نے لگائی تھی جو اپنے ساتھیوں سمیت درگاہ میں کئی ہفتوں تک محصور رہے تھے۔ بھارتی فوج نے عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات ملنے کے بعد درگاہ کو محاصرے میں لیا تھا۔ عسکریت پسندوں نے آتشزدگی کیلئے فوج کو ذمہ دار قرار دیا تھا۔
اس واقعےکے بعد درگاہ کی تعمیر نو کی گئی اور اسکی حفاظت کیلئے مسلح پولیس اہلکار بڑی تعداد میں تعینات کئے گئے۔
قابل ذکر ہے کہ 5 اگست کو مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت دفعہ 370 کو منسوخ اور ریاست کو مرکز کے دو علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ریاست کو 31 اکتوبر کو تقسیم کیا جائے گا۔