ان لوگوں کا کہنا ہے کہ طرفین کے درمیان جنگ سے مسائل مزید سنگین ہوں گے اور لوگوں کو بھی گونا گوں پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑے گا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ طرفین کو بات چیت کے ذریعے یہ مسئلہ کرکے ایک بڑی آفت کو ٹالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
ذرائع سے سے معلوم ہوا کہ گلوان وادی کے متصل بستیوں کے لوگ جو افواج کی سرگرمیوں کو دیکھ رہے ہیں، کو خدشات لاحق ہیں کہ اگر طرفین کے درمیان جنگ ہوئی تو اس کا سب سے زیادہ خمیازہ ان ہی کو بھگتنا پڑے گا۔ تاہم ان کا کہنا تھا: 'یہ لوگ بھارتی فوج کو ہر ممکن مدد و تعاون فراہم کرنے کے لئے تیار ہیں'۔
لداخ یونین ٹریٹری کے سنجیدہ فکر لوگوں کا کہنا ہے کہ جنگ سے مسائل سنگین ہی ہوں گے لہٰذا طرفین کو بات چیت کے ذریعے موجودہ صورتحال کو قابو میں لانا چاہئے۔ انہوں نے کہا: 'یہاں جو لوگ سنجیدہ ہیں ان میں طرح طرح کے خدشات پیدا ہوئے ہیں ان لوگوں میں خوف وڈر ہے کہ اگر جنگ ہوئی تو موجودہ حالات میں مشکلات مزید دو چند ہوجائیں گے'۔
لداخ خود مختار پہاڑی کونسل لیہہ کے ایگزیکٹو کونسلر کونچوک سٹینزن نے میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ طرفین کے درمیان گلوان وادی میں ٹکراؤ کی صورتحال کی وجہ سے لوگوں میں ڈر پیدا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا: 'سال 1962 کے بعد پہلی بار ایسا ہورہا ہے کہ کہ فوجی اہلکاروں کی نقل وحرکت بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں خدشات و خوف پیدا ہوا ہے'۔
موصوف کونسلر نے کہا کہ چین ہمارے خطے میں داخل ہوا ہے اور ہماری فوج اس مسئلے کو جلد سے جلد سلجھانے کی کوشش کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ باہمی مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے کیونکہ بات چیت ہی مسائل کو حل کرنے کا بہترین اور موثر ذریعہ ہے۔
موصوف نے کہا کہ مقامی لوگ اپنے فوج کی ہر ممکن مدد وتعاون کرنے کے لئے تیار ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ مشرقی لداخ میں حقیقی کنٹرول لائن کے کئی علاقوں میں ہندوستان اور چین کی افواج ایک دوسرے کے خلاف مورچہ بندی میں مصروف عمل ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق 5 مئی کو پانچ ہزار چینی فوجی اہلکار گلوان وادی میں دو سے تین کلو میٹر اندر بھارتی حدود میں داخل ہوئے اور بعد ازاں ایک ہفتہ کے بعد 12 مئی کو اتنی ہی تعداد میں چینی فوجی اہلکار پیونگ یانگ جھیل سیکٹر میں وارد ہوئے