ETV Bharat / state

احمدآباد کی کامیاب کاروباری خاتون کی کہانی - saheli showroom ahmedabad

شہر احمد آباد میں رہنے والی خورشید زمانی صدیقی نے کپڑوں کے کاروبار میں کامیابی حاصل کرکے موجودہ دور کی خواتین کے لیے بہتر مثال پیش کی ہے۔

احمدآباد کی کامیاب کاروباری خاتون
احمدآباد کی کامیاب کاروباری خاتون
author img

By

Published : Aug 30, 2021, 2:16 PM IST

Updated : Aug 30, 2021, 4:15 PM IST

موجودہ وقت میں خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ چل رہی ہیں اور مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہی ہیں۔ ایسی ہی ایک کہانی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد میں رہنے والی خاتون خورشید زمانی صدیقی کی ہے جو کامیاب بزنس وومین ہیں اور برسوں سے کپڑوں کا شو روم چلارہی ہیں۔

احمدآباد کی کامیاب کاروباری خاتون

خورشید زمانی صدیقی کاروباری میں کامیابی حاصل کرکے خواتین کے لیے بہتر مثال بن چکی ہیں۔ چند برسوں قبل سلائی کا کام کرکے اپنا گزارا کرنے والی احمدآباد کی اس خاتون نے کاروبار میں اپنی الگ شناخت بنائی اور شہر میں کپڑوں کا شو روم چلارہی ہیں۔

خورشید زمانی اردو کے مشہور شاعر رحمت امروہی کی بیٹی ہیں۔ ان کی پیدائش امروہہ میں پیدا ہوئی جب کہ شادی احمدآباد کے وقار احمد صدیقی سے ہوئی جو ایک اسکول میں ٹیچر تھے۔

شادی کے بعد خورشید بانو گھر میں رہتے ہوئے کچھ کام کرنا چاہتی تھی۔ چونکہ انہیں سلائی کڑھائی کا کام آتا تھا اس لیے انہوں نے لڑکیوں کے کپڑوں کی سلائی شروع کی۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ انہیں سلائی کا کام آتا تھا لیکن شوہر چاہتے تھے کی وہ اس کام میں مہارت حاصل کریں اس لیے انہوں نے کپڑے سینے کی ٹریننگ بھی لی اور سلائی کلاسیس میں ڈیزائنر کپڑے سینے میں مہارت حاصل کی جو آج ان کے کاروبار کی کامیابی کی ضامن ہے۔

خورشید زمانی نے بتایا کہ انہوں نے سنہ 1985 میں باقاعدہ سلائی کا کام شروع کیا اور آہستہ آہستہ دو مشین خرید کر کاریگر کو کام پر رکھ لیا جس میں وہ کپڑوں کی کٹنگ کرتیں اور کاریگر ان کپڑوں کی سلائی کرتے تھے۔

اب جب کہ ان کے کام میں اضافہ ہوا اور کاروبار بڑھ گیا ہے تو ان کے بچے بھی اس کام میں ان کی مدد کرتے ہیں۔

خورشید زمانی نے بتایا کہ احمدآباد کا سندری ہال ایک ڈرامہ گھر ہے جہاں مختلف آرٹسٹ ڈرامہ پیش کرنے آتے تھے چونکہ خورشید زمانی کی ٹیلرنگ کی دوکان سامنے ہی تھی اس لیے زیادہ تر آرٹسٹ اور گجراتی اداکاراؤں نے خورشید زمانی سے اپنے کپڑے بنوانے شروع کئے اور انہیں خورشید زمانی کا کام اتنا پسند آیا کہ آج بھی زیادہ تر آرٹسٹ اور این آر آئی خواتین ان سے کپڑے بنواتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سندری ہال میں آنے والے ٹی وی آرٹسٹ کے کپڑے بنانے سے کاروبار اچھا چلنے لگا اور بعد میں انہوں نے فیشن ڈیزائننگ کا کورس کرلیا جب کہ اس کام میں ان کا بیٹا بھی ان کی مدد کرتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے سنہ 1988 میں روس میں ہونے والے 'فیسٹیول آف انڈیا' میں شامیانہ تیار کرنے کے لیے خورشید زمانی کو بھی مدعو کیا گیا تھا لیکن بچوں کی ذمہ داری سر پر ہونے کی وجہ سے وہ اس میں شریک نہیں ہوسکی تھیں تاہم انہوں نے شامیانے کی ڈیزائن پیج ورک کرکے وہاں بھیجی تھی۔

انہوں نے کہا کہ لوگ اب انہیں سہیلی والی آنٹی کے نام سے پکارتے ہیں کیونکہ ان کے یہاں سب کے ساتھ دوست و سہیلی کی طرح ہی برتاؤ کیا جاتا ہے۔

آج 70 سال کی عمر میں بھی خورشید زمانی اسی طرح کام کررہی ہیں اور خواتین کے لیے مثال بن چکی ہیں۔

موجودہ وقت میں خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ چل رہی ہیں اور مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہی ہیں۔ ایسی ہی ایک کہانی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد میں رہنے والی خاتون خورشید زمانی صدیقی کی ہے جو کامیاب بزنس وومین ہیں اور برسوں سے کپڑوں کا شو روم چلارہی ہیں۔

احمدآباد کی کامیاب کاروباری خاتون

خورشید زمانی صدیقی کاروباری میں کامیابی حاصل کرکے خواتین کے لیے بہتر مثال بن چکی ہیں۔ چند برسوں قبل سلائی کا کام کرکے اپنا گزارا کرنے والی احمدآباد کی اس خاتون نے کاروبار میں اپنی الگ شناخت بنائی اور شہر میں کپڑوں کا شو روم چلارہی ہیں۔

خورشید زمانی اردو کے مشہور شاعر رحمت امروہی کی بیٹی ہیں۔ ان کی پیدائش امروہہ میں پیدا ہوئی جب کہ شادی احمدآباد کے وقار احمد صدیقی سے ہوئی جو ایک اسکول میں ٹیچر تھے۔

شادی کے بعد خورشید بانو گھر میں رہتے ہوئے کچھ کام کرنا چاہتی تھی۔ چونکہ انہیں سلائی کڑھائی کا کام آتا تھا اس لیے انہوں نے لڑکیوں کے کپڑوں کی سلائی شروع کی۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ انہیں سلائی کا کام آتا تھا لیکن شوہر چاہتے تھے کی وہ اس کام میں مہارت حاصل کریں اس لیے انہوں نے کپڑے سینے کی ٹریننگ بھی لی اور سلائی کلاسیس میں ڈیزائنر کپڑے سینے میں مہارت حاصل کی جو آج ان کے کاروبار کی کامیابی کی ضامن ہے۔

خورشید زمانی نے بتایا کہ انہوں نے سنہ 1985 میں باقاعدہ سلائی کا کام شروع کیا اور آہستہ آہستہ دو مشین خرید کر کاریگر کو کام پر رکھ لیا جس میں وہ کپڑوں کی کٹنگ کرتیں اور کاریگر ان کپڑوں کی سلائی کرتے تھے۔

اب جب کہ ان کے کام میں اضافہ ہوا اور کاروبار بڑھ گیا ہے تو ان کے بچے بھی اس کام میں ان کی مدد کرتے ہیں۔

خورشید زمانی نے بتایا کہ احمدآباد کا سندری ہال ایک ڈرامہ گھر ہے جہاں مختلف آرٹسٹ ڈرامہ پیش کرنے آتے تھے چونکہ خورشید زمانی کی ٹیلرنگ کی دوکان سامنے ہی تھی اس لیے زیادہ تر آرٹسٹ اور گجراتی اداکاراؤں نے خورشید زمانی سے اپنے کپڑے بنوانے شروع کئے اور انہیں خورشید زمانی کا کام اتنا پسند آیا کہ آج بھی زیادہ تر آرٹسٹ اور این آر آئی خواتین ان سے کپڑے بنواتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سندری ہال میں آنے والے ٹی وی آرٹسٹ کے کپڑے بنانے سے کاروبار اچھا چلنے لگا اور بعد میں انہوں نے فیشن ڈیزائننگ کا کورس کرلیا جب کہ اس کام میں ان کا بیٹا بھی ان کی مدد کرتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے سنہ 1988 میں روس میں ہونے والے 'فیسٹیول آف انڈیا' میں شامیانہ تیار کرنے کے لیے خورشید زمانی کو بھی مدعو کیا گیا تھا لیکن بچوں کی ذمہ داری سر پر ہونے کی وجہ سے وہ اس میں شریک نہیں ہوسکی تھیں تاہم انہوں نے شامیانے کی ڈیزائن پیج ورک کرکے وہاں بھیجی تھی۔

انہوں نے کہا کہ لوگ اب انہیں سہیلی والی آنٹی کے نام سے پکارتے ہیں کیونکہ ان کے یہاں سب کے ساتھ دوست و سہیلی کی طرح ہی برتاؤ کیا جاتا ہے۔

آج 70 سال کی عمر میں بھی خورشید زمانی اسی طرح کام کررہی ہیں اور خواتین کے لیے مثال بن چکی ہیں۔

Last Updated : Aug 30, 2021, 4:15 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.