ETV Bharat / state

Ahmedabad Bomb Blast Case: احمدآباد بم دھماکہ کیس، پھانسی کی سزا پانے والے ملزمین کے اہلِ خانہ کا درد

author img

By

Published : Mar 28, 2022, 7:27 PM IST

سنہ 2008 احمد آباد سلسلہ وار بم دھماکہ کیس کا فیصلہ 18 فروری کو سنایا گیا جس میں 38 افراد کو پھانسی اور 11 ملزمین کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ Ahmedabad Bomb Blast Case جس کے بعد ملزمین کے اہل خانہ کا حال بُرا ہے اور وہ در در بھٹک کر انصاف کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ان کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے ایسے می‍ں ملزمین کے اہل خانہ نے ای ٹی وی بھارت کو اپنا درد سنایا۔

پھانسی کی سزا پانے والے ملزمین کے اہلخانہ
پھانسی کی سزا پانے والے ملزمین کے اہلخانہ

دراصل 26 جولائی 2008 کو احمدآباد میں سلسلہ وار بم دھماکے ہوئے تھے۔ احمدآباد کے 20 مقامات پر 21 بم دھماکے ہوئے تھے، جس میں 56 افراد ہلاک اور 244 افراد زخمی ہوئے تھے۔ احمدآباد میں 20 اور سورت میں اس معاملے کی 15 ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ جس میں 78 ملزمین کو گرفتار کیا گیا تھا جو ملک کی مختلف ریاستوں سے تعلق رکھتے تھے اور احمدآباد سابرمتی جیل کے علاوہ دوسری ریاستوں کی جیل میں بند تھے۔ Ahmedabad Bomb Blast Accused Family

احمدآباد بم دھماکہ کیس، پھانسی کی سزا پانے والے ملزمین کے اہلِ خانہ کا درد

بم دھماکہ کیس کے ملزم مبین خان کی اہلیہ روبینہ خان نے کہا کہ 'میں اندور مدھیہ پردیش سے ہوں، میرے شوہر کو 2008 بم دھماکے کیس میں جیل میں ڈالا گیا وہ بالکل غلط ہے، میرے شوہر بے قصور ہیں۔ انہوں نے کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا ہے، ان کے جیل جانے کے بعد ہم لوگ گزشتہ 13 سال سے کافی پریشان حال ہیں میرا میکہ۔ میرا سسرال کچھ نہیں ہے اندور سے میں اکیلی اپنی بیٹی کے ساتھ احمدآباد میں رہ رہی ہوں۔ احمدآباد کے جوہاپورا میں کرائے کے مکان میں رہ رہی ہوں، میری 13 سال کی بیٹی ہے ہم لوگوں کے حالات بہت خراب ہیں، میں سلائی کا کام کرکے پیٹ پال رہی ہوں۔

روبینہ خان نے مزید کہا کہ میری شادی کو صرف تین سال ہوئے تھے اور اس کے بعد ہی میرے شوہر کو اس کیس میں گرفتار کرکے کے احمد آباد سابرمتی جیل میں بند کر دیا گیا، اندور سے احمدآباد بار بار آنا بہت مشکل تھا اس لیے میں احمدآباد میں رہنے لگی۔ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے خصوصی عدالت میں تو انہیں انصاف نہیں مل پایا لیکن مجھے بھروسہ ہے کے گجرات ہائی کورٹ یا سُپریم کورٹ سے ہمیں انصاف ملے گا۔

اس کیس میں گرفتار ہونے والے توصیف خان پٹھان کی والدہ نسیم بانو پٹھان ہیں، اسے بہار سے بم دھماکے کیس میں گرفتار کیا گیا تھا اور اسے احمدآباد کی خصوصی عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی ہے۔ وہ چار سال سے بہار جیل میں بند ہے، وہ بالکل بے قصور ہے اس کا کسی تنظیم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، میرا بیٹا احمدآباد کی انجینئرنگ کالج میں پروفیسر تھا، اچھا پڑھا لکھا سمجھدار انسان تھا اور جب وہ بہار گیا تھا تب اسے اچانک سے گرفتار کر لیا گیا تھا اس کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں احمدآباد میں رہتی ہوں اور پریشانی یہ ہے کہ ہم اپنے بیٹے سے جیل میں ملنے بہار نہیں جا سکتے، میری مالی حالت کافی خراب ہے، میری دو لڑکیاں مجھے سنبھالتی ہیں، میں اکیلی ہوں اور بہت پریشان ہوں، میں چاہتی ہوں کہ اسے بہار جیل سے احمدآباد کی سابرمتی جیل میں شفٹ کیا جائے کیونکہ اب ہائی کورٹ میں یہ کیس شروع ہوگا اس لیے اس کا یہاں ہونا ضروری ہے ہمیں پورا بھروسہ ہے کہ انصاف ملے گا۔

وہیں ایک اور ملزم صفدر حسین ناگوری کے چچا سراج الدین ناگوری نے اپنا حال سناتے ہوئے کہا کہ 'میں اجین رہتا ہوں، میرا بھتیجہ بھوپال جیل میں بند ہے اسے بھی احمدآباد کی خصوصی عدالت نے 2008 بم دھماکے کیس میں پھانسی کی سزا سنائی ہے، میرا بھتیجہ 27 مارچ 2008 سے جیل میں بند ہے، اندور کے سیمی کے کیس میں بند ہے وہ پہلے سے جیل میں بند تھا تب بھی اسے بم دھماکے کیس سے جوڑ دیا گیا جبکہ احمدآباد میں جولائی 2008 میں بم دھماکے ہوئے تھا اور اسے اب پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے جیل جانے کے بعد گھر کی حالت خراب ہو گئی ہے، گھر برباد ہو گیا ہے، بہت نقصان ہوا، بچوں کی شادی رک گئی ہے لوگوں میں غلط اثرات گئے ہیں، بہت پریشانی میں ہم جی رہے ہیں ہمیں قانون پر بھروسہ ہے اور ہمیں آگے عدالت سے ضرور انصاف ملے گا، اب ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بھتیجے کو بھوپال جیل سے احمدآباد کی جیل میں شفٹ کر دیا جائے تاکہ آگے قانونی کارروائی میں آسانی ہو۔

واضح رہے کہ اس معاملے کی سماعت خصوصی عدالت میں ہوئی تھی اور 14 سال کے بعد اس کا فیصلہ 8 فروری کو آیا جس میں عدالت نے 28 ملزمین کو باعزت بری کیا جبکہ 49 لوگوں قصور وار ٹھہرایا گیا۔ پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ انڈین مجاہدین سے وابستہ لوگوں نے یہ بم دھماکے کیے ہیں۔ یہی نہیں پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ملزمین نے پوچھ گچھ کے دوران اعتراف کیا کہ انڈین مجاہدین نے یہ دھماکہ 2002 کے فسادات کا بدلہ لینے کے لئے کیا تھا۔ خصوصی عدالت نے اس معاملے میں 49 ملزمین کا 18 فروری کے دن تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے ان میں سے 38 کو سزائے موت اور باقی گیارہ ملزمین کو عمر قید کی سزا سنائی۔ واضح رہے کہ دفاعی وکلاء بہت جلد اس کیس کو گجرات ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے اور زیادہ سے زیادہ ملزمین کو انصاف دلانے کی قانونی لڑائی لڑیں گے۔

دراصل 26 جولائی 2008 کو احمدآباد میں سلسلہ وار بم دھماکے ہوئے تھے۔ احمدآباد کے 20 مقامات پر 21 بم دھماکے ہوئے تھے، جس میں 56 افراد ہلاک اور 244 افراد زخمی ہوئے تھے۔ احمدآباد میں 20 اور سورت میں اس معاملے کی 15 ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ جس میں 78 ملزمین کو گرفتار کیا گیا تھا جو ملک کی مختلف ریاستوں سے تعلق رکھتے تھے اور احمدآباد سابرمتی جیل کے علاوہ دوسری ریاستوں کی جیل میں بند تھے۔ Ahmedabad Bomb Blast Accused Family

احمدآباد بم دھماکہ کیس، پھانسی کی سزا پانے والے ملزمین کے اہلِ خانہ کا درد

بم دھماکہ کیس کے ملزم مبین خان کی اہلیہ روبینہ خان نے کہا کہ 'میں اندور مدھیہ پردیش سے ہوں، میرے شوہر کو 2008 بم دھماکے کیس میں جیل میں ڈالا گیا وہ بالکل غلط ہے، میرے شوہر بے قصور ہیں۔ انہوں نے کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا ہے، ان کے جیل جانے کے بعد ہم لوگ گزشتہ 13 سال سے کافی پریشان حال ہیں میرا میکہ۔ میرا سسرال کچھ نہیں ہے اندور سے میں اکیلی اپنی بیٹی کے ساتھ احمدآباد میں رہ رہی ہوں۔ احمدآباد کے جوہاپورا میں کرائے کے مکان میں رہ رہی ہوں، میری 13 سال کی بیٹی ہے ہم لوگوں کے حالات بہت خراب ہیں، میں سلائی کا کام کرکے پیٹ پال رہی ہوں۔

روبینہ خان نے مزید کہا کہ میری شادی کو صرف تین سال ہوئے تھے اور اس کے بعد ہی میرے شوہر کو اس کیس میں گرفتار کرکے کے احمد آباد سابرمتی جیل میں بند کر دیا گیا، اندور سے احمدآباد بار بار آنا بہت مشکل تھا اس لیے میں احمدآباد میں رہنے لگی۔ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے خصوصی عدالت میں تو انہیں انصاف نہیں مل پایا لیکن مجھے بھروسہ ہے کے گجرات ہائی کورٹ یا سُپریم کورٹ سے ہمیں انصاف ملے گا۔

اس کیس میں گرفتار ہونے والے توصیف خان پٹھان کی والدہ نسیم بانو پٹھان ہیں، اسے بہار سے بم دھماکے کیس میں گرفتار کیا گیا تھا اور اسے احمدآباد کی خصوصی عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی ہے۔ وہ چار سال سے بہار جیل میں بند ہے، وہ بالکل بے قصور ہے اس کا کسی تنظیم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، میرا بیٹا احمدآباد کی انجینئرنگ کالج میں پروفیسر تھا، اچھا پڑھا لکھا سمجھدار انسان تھا اور جب وہ بہار گیا تھا تب اسے اچانک سے گرفتار کر لیا گیا تھا اس کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں احمدآباد میں رہتی ہوں اور پریشانی یہ ہے کہ ہم اپنے بیٹے سے جیل میں ملنے بہار نہیں جا سکتے، میری مالی حالت کافی خراب ہے، میری دو لڑکیاں مجھے سنبھالتی ہیں، میں اکیلی ہوں اور بہت پریشان ہوں، میں چاہتی ہوں کہ اسے بہار جیل سے احمدآباد کی سابرمتی جیل میں شفٹ کیا جائے کیونکہ اب ہائی کورٹ میں یہ کیس شروع ہوگا اس لیے اس کا یہاں ہونا ضروری ہے ہمیں پورا بھروسہ ہے کہ انصاف ملے گا۔

وہیں ایک اور ملزم صفدر حسین ناگوری کے چچا سراج الدین ناگوری نے اپنا حال سناتے ہوئے کہا کہ 'میں اجین رہتا ہوں، میرا بھتیجہ بھوپال جیل میں بند ہے اسے بھی احمدآباد کی خصوصی عدالت نے 2008 بم دھماکے کیس میں پھانسی کی سزا سنائی ہے، میرا بھتیجہ 27 مارچ 2008 سے جیل میں بند ہے، اندور کے سیمی کے کیس میں بند ہے وہ پہلے سے جیل میں بند تھا تب بھی اسے بم دھماکے کیس سے جوڑ دیا گیا جبکہ احمدآباد میں جولائی 2008 میں بم دھماکے ہوئے تھا اور اسے اب پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے جیل جانے کے بعد گھر کی حالت خراب ہو گئی ہے، گھر برباد ہو گیا ہے، بہت نقصان ہوا، بچوں کی شادی رک گئی ہے لوگوں میں غلط اثرات گئے ہیں، بہت پریشانی میں ہم جی رہے ہیں ہمیں قانون پر بھروسہ ہے اور ہمیں آگے عدالت سے ضرور انصاف ملے گا، اب ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بھتیجے کو بھوپال جیل سے احمدآباد کی جیل میں شفٹ کر دیا جائے تاکہ آگے قانونی کارروائی میں آسانی ہو۔

واضح رہے کہ اس معاملے کی سماعت خصوصی عدالت میں ہوئی تھی اور 14 سال کے بعد اس کا فیصلہ 8 فروری کو آیا جس میں عدالت نے 28 ملزمین کو باعزت بری کیا جبکہ 49 لوگوں قصور وار ٹھہرایا گیا۔ پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ انڈین مجاہدین سے وابستہ لوگوں نے یہ بم دھماکے کیے ہیں۔ یہی نہیں پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ملزمین نے پوچھ گچھ کے دوران اعتراف کیا کہ انڈین مجاہدین نے یہ دھماکہ 2002 کے فسادات کا بدلہ لینے کے لئے کیا تھا۔ خصوصی عدالت نے اس معاملے میں 49 ملزمین کا 18 فروری کے دن تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے ان میں سے 38 کو سزائے موت اور باقی گیارہ ملزمین کو عمر قید کی سزا سنائی۔ واضح رہے کہ دفاعی وکلاء بہت جلد اس کیس کو گجرات ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے اور زیادہ سے زیادہ ملزمین کو انصاف دلانے کی قانونی لڑائی لڑیں گے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.