احمدآباد: احمدآباد شہر کے سرخیز علاقہ میں حضرت گنج بخش کھٹو رحمۃ اللہ علیہ کا روضہ مبارک موجود ہے۔ روضہ مبارک سے متصل ایک خوبصورت تالاب بھی ہے، جسے سرخیز روزہ تالاب کہا جاتا ہے۔ احمدآباد کا سرخیز روضہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہندو ومسلم دونوں کمیونٹیز کے لوگ جاتے ہیں اور پوری دنیا سے لوگ یہاں پر سیر کرنے آتے ہیں۔ یہاں پر اے پی جے عبدالکلام، پی ایم مودی سے لے کر کئی چھوٹے بڑے لیڈران آ چکے ہیں اور کئی فلموں کی شوٹنگ بھی یہاں ہو چکی ہے۔ احمدآباد شہر کی بنیاد رکھنے والے چار بادشاہوں میں سے ایک شیخ احمد کھٹو بھی تھے۔ شیخ احمد کھٹو 111 سال کی عمر تک زندہ رہے اور 1445 عیسوی میں ان کی وفات کے بعد اس وقت کے حکمران بادشاہ محمد شاہ نے ان کی یاد میں ایک مسجد کے ساتھ ایک مقبرہ (روضہ ) کی تعمیر کا مطالبہ کیا۔ یہ دونوں یادگاریں 1451 عیسوی میں ان کے جانشین قطب الدین احمد شاہ نے مکمل کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:
پندرھویں صدی کے نصف آخر میں سلطان محمود بیگڑا نے 17 ایکڑ پر محیط ایک بڑی جھیل بنا کر سرخیز روضہ کمپلیکس کی شان میں اضافہ کیا۔ جس کے اطراف میں پتھر کی سیڑھیاں ہیں۔ جسے آج سرخیز روضہ تالاب کہا جاتا ہے۔ یہ تاریخی سرخیز روضہ تالاب آج خطرے میں نظر ارہا ہے۔ اس تعلق سے مکتم پورا کے کونسلر مرزا حاجی اسرار بیگ نے کہا کہ سرخیز روزہ ہمارا تاریخی ورثہ ہے اور اس کا تالاب اس میں چار چاند لگا دیتا ہے۔ جسے دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں اور امتیابھ بچن نے بھی کہا تھا کہ کچھ دن تو گزارو گجرات میں، خوشبو گجرات کی، لیکن یہاں پر میں کہنا چاہتا ہوں کہ آئیے کچھ دن گزاریں گجرات میں اور دیکھیں بدبو گجرات کی۔ سرخیز روضہ کو ثقافتی و تاریخی مقامات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ جس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سرخیز روضہ مینجمنٹ، احمدآباد میونسپل کارپوریشن، ہیریٹیج ڈیپارٹمنٹ اور ریاستی حکومت کی ہے۔
لیکن گزشتہ کئی سالوں سے سرخیز روضہ تالاب میں سنگھوڑا تالاب کا گندہ پانی بھر جانے کی وجہ سے سرخیز روزہ تالاب کا پانی گندہ ہوتا جارہا ہے اور اس گندے پانی کی وجہ سے سرخیز روضہ کی تاریخی دیواریں متاثر ہو رہی ہیں اور اس میں ایسڈ کا پانی لگنے کی وجہ سے دیواروں کا گرنے کا بھی خطرہ نظر آرہا ہے۔ یہ خطرے میں نظر آرہا ہے۔ لیکن ابھی تک کسی کی آنکھ نہیں کھل رہی ہے۔ ہم نے کئی مرتبہ احمدآباد میونسپل کارپوریشن میں ہیریٹیج ڈیپارٹمنٹ میں اور کئی مقامات پر اس کے لیے فریاد لگائی کہ سرخیز روضہ تالاب کی حفاظت کی جائے۔ اس کے تالاب میں صاف پانی دیا جائے اور گندہ پانی کو آنے سے روکا جائے۔ اس مونیمنٹ کی حفاظت کی جائے اور اسے ڈیولپ کیا جائے لیکن ابھی تک صرف کاغذ پہ بات نظر آتی ہے کسی طرح کا امپلیمنٹیشن نہیں ہوا ہے۔
سمجھا جارہا ہے کہ یہ مائنارٹی کے علاقے میں ایک مسلم وراثت ہونے کی وجہ سے اس پر دھیان نہیں دیا جا رہا ہے۔ جب کہ احمدآباد میں ریور فرنٹ، اٹل بریج، کانکریہ جھیل اور کئی بڑی بڑی عمارتیں بنا کر لوگوں کو گجرات ماڈل دکھایا جا رہا ہے لیکن جو عمارت 600 سال سے بھی زیادہ قدیم سرخیز روضہ ہے۔ اس کی حفاظت کرنے میں کارپوریشن اور دیگر ہیریٹیج ڈیپارٹمنٹ لاپرواہی دکھا رہا ہے۔ یہاں پر نہ کسی طرح کی لائٹنگ کی گئی ہے۔ نہ ہی گارڈن کا ڈولپمنٹ کیا گیا ہے۔ نہ ہی گندے پانی کو آنے سے روکا جاتا ہے۔ سنگھوڑا تالاب میں جو پورے علاقے کا گٹروں کا پانی ہے وہ بھر جاتا ہے اور وہی پانی سرخیز روضہ تالاب میں بھی مکس ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کے قریب کے لوگ بیمار بھی ہو رہے ہیں اور گندگی سے پریشان بھی ہیں اور سب سے بڑا خطرہ تو اس عمارت کو ہے جو اس گندے پانی اور کچروں کی وجہ سے گر سکتی ہے۔ لیکن اب تک کسی کی آنکھ نہیں کھل رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سرخیز روضہ کی دیکھ بھال کرنے والے لوگوں کے آپس میں تال میل نہ ہونے کی وجہ سے سرخیز روضہ تالاب کی حالت دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ سرخیز روضہ میں پتھر ٹوٹنے سے جھیل میں گندگی پھیل رہی ہے۔ سرخیز روزہ کے قریب سنگھوڑا تالاب سے بھی گندہ پانی سرخیز روضہ میں مل جانے سے یہ گندہ پانی اور کچرا سرخیز روضہ تالاب میں اور دیواروں میں چپک رہا ہے اور دھیرے دھیرے دیواروں کو خراب کر رہا ہے۔ اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ جلد از جلد سرخیز روضہ تالاب پر دھیان دیا جائے اور اسے دوسرے پکنک اسپوٹ کی طرح ڈیولپ کیا جائے۔