ETV Bharat / state

Muslim Youths Thrashing in Public مسلم نوجوانوں کی سرعام پٹائی کا معاملہ: پولس نے متاثرین کو معاوضہ دینے کی پیشکش کی

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Oct 14, 2023, 10:22 AM IST

ایک سال قبل 4 اکتوبر 2022 کو نوراتری کے دوران گجرات کے کھیڑا میں پتھراؤ کا معاملہ سامنے آیا تھا جس کے بعد پولیس نے مسلم نوجوانوں کو ایک ستون کے پاس کھڑا کرکے سرعام شدید پٹائی کی تھی۔ یہ معاملہ گجرات ہائی کورٹ پہنچا اور گجرات ہائی کورٹ میں اس معاملہ کی سماعت کے دوران ملزم پولیس اہلکاروں نے عدالت سے سزا دینے کی بجائے متاثرین کو معاوضہ دینے کی درخواست پیش کی ہے۔ اگر عدالت ان پولیس والوں کو سزا سناتی ہے تو ان کا کریئر ختم ہو سکتا ہے۔ Muslim Men Flogged by Cops

Muslim Youths Thrashing in Public
Muslim Youths Thrashing in Public

اندھیلا گاؤں، ضلع کھیڑا، گجرات: دراصل گجرات کے کھیڑا ضلع کے اندھیلا گاؤں میں چار اکتوبر 2022 کو نوراتری کے دوران پتھر بازی کا واقعہ سامنے آیا تھا۔ اس کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ایک ستون سے مسلم نوجوانوں کو کھڑا کر کے سرعام لاٹھی سے شدید پٹائی کی۔ اس کے بعد یہ معاملہ گجرات ہائی کورٹ پہنچا اور گجرات ہائی کورٹ نے بھی ان پولیس ملزمین کے خلاف الزامات طے کیے ہیں۔ اس معاملہ پر چار پولیس اہلکاروں نے ہائی کورٹ سے سزا نہ دینے کی درخواست کی ہے۔ اتنا ہی نہیں ملزم پولیس اہلکاروں نے عدالت سے مسلم متاثرہ نوجوانوں کو سزا دینے کی بجائے معاوضہ دینے کی بھی درخواست کی ہے۔ اس پر پولیس والوں کا کہنا ہے کہ اگر عدالت انہیں سزا سناتی ہے تو ان کا کریئر ختم ہو جائے گا۔ اس معاملہ میں ملزم انسپیکٹر اے وی پر مار، پی ایس آئی ڈی بی کماوت، ہیڈ کانسٹیبل کنک سنگھ ڈابھی اور کانسٹیبل راجو ڈھابی نے ہائی کورٹ کو بتایا ہے کہ اس معاملہ میں انہیں سزا دینے کی بجائے عدالت ان سے کہے کہ اگر وہ قصوروار پائے جاتے ہیں تو شکایت کنندہ کو معاوضہ ادا کریں۔

یہ بھی پڑھیں:

Muslim men flogged by cops گجرات میں مسلم نوجوانوں کی بے رحمی سے پٹائی

ملزم پولیس والوں نے عدالت میں یہ بھی کہا تھا کہ انہوں نے پولیس سروس میں 15 سے 20 سال کی سروس مکمل کی ہے لہٰذا اگر انہیں سزا ہوتی ہے تو اس سے ان کے کریئر پر برا اثر پڑے گا اور اس سے ان کے اہل خانہ بھی متاثر ہوں گے۔ اگر عدالت انہیں سزا دینے کی بجائے متاثرین کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیتی ہے۔ انہیں بطور ملزم سخت نتائج کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ملزم کے وکیل نے بھی عدالت کے سامنے شکایت کنندگان کے ساتھ معاملات طے کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ متاثرین کے وکیل نے ملزم کی جانب سے عدالت میں تصفیہ اور معاوضہ کے حوالے سے دی گئی تجویز کے بارے میں اپنے موکل سے بات کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اس معاملہ پر مزید سماعت 16 اکتوبر کو ہوگی۔

واضح رہے کہ گجرات کے کھیڑا ضلع کے اندھیلا گاؤں میں پولیس کے ذریعہ مسلم نوجوانوں کی سرعام پٹائی کا ویڈیو بھی تیزی سے وائرل ہوا تھا جس میں ایک پولیس اہلکار متاثرین کے ہاتھ کھینچ کر ستون کے پاس کھڑا تھا اور دوسرا پولیس اہلکار متاثرین کو لاٹھی سے مارتا ہوا نظر آیا پولیس کی بربریت کے متاثرین نے انصاف کے حصول کے لیے گجرات ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی متاثرین کا دعوی ہے کہ سرعام پٹائی کر پولیس نے سپریم کورٹ کے رہنما خطوط کے خلاف ورزی اور ان کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے ہائی کورٹ نے پورے واقعہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے چاروں پولیس اہلکاروں کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔

اس معاملہ پر سماعت کے دوران ملزم پولیس انسپیکٹر اے وی پرمار نے گجرات ہائی کورٹ میں حلف نامہ داخل کیا اور کہا کہ متاثرہ کو کولہے پر ڈنڈے مارنا یقینا ناقابل قبول اور نامناسب ہے لیکن اسے حراستی تشدد نہیں کہا جا سکتا اس لیے اس معاملہ میں توہین عدالت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ اے وی پرمار ہی تھے جنہوں نے اس واقعہ کے بعد متاثرین کی پٹائی کی جبکہ راجو ڈھابی نامی کانسٹیبل نے متاثرین کا ہاتھ پکڑا تھا پی آئی پرمار کے حلف نامے کی بنیاد پر راجو ڈھابی نے یہ کہا کہ اگر متاثرہ کو لاٹھی سے مارنا حراستی تشدد نہیں ہے تو متاثرہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے ستون کے پاس کھڑا کرنا بھی حراستی تشدد نہیں کہا جا سکتا اس معاملہ کے دیگر دو ملزمان پی ایس آئی کماوت اور ہیڈ کانسٹیبل کنک سنگھ ڈھابی نے بھی عدالت میں یہی بات کہی عدالت تمام پولیس اہلکاروں پر توہین عدالت کا الزام عائد کیا اور چاروں پولیس اہلکاروں نے غیر مشروط معافی بھی مانگی ہے۔

اندھیلا گاؤں، ضلع کھیڑا، گجرات: دراصل گجرات کے کھیڑا ضلع کے اندھیلا گاؤں میں چار اکتوبر 2022 کو نوراتری کے دوران پتھر بازی کا واقعہ سامنے آیا تھا۔ اس کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ایک ستون سے مسلم نوجوانوں کو کھڑا کر کے سرعام لاٹھی سے شدید پٹائی کی۔ اس کے بعد یہ معاملہ گجرات ہائی کورٹ پہنچا اور گجرات ہائی کورٹ نے بھی ان پولیس ملزمین کے خلاف الزامات طے کیے ہیں۔ اس معاملہ پر چار پولیس اہلکاروں نے ہائی کورٹ سے سزا نہ دینے کی درخواست کی ہے۔ اتنا ہی نہیں ملزم پولیس اہلکاروں نے عدالت سے مسلم متاثرہ نوجوانوں کو سزا دینے کی بجائے معاوضہ دینے کی بھی درخواست کی ہے۔ اس پر پولیس والوں کا کہنا ہے کہ اگر عدالت انہیں سزا سناتی ہے تو ان کا کریئر ختم ہو جائے گا۔ اس معاملہ میں ملزم انسپیکٹر اے وی پر مار، پی ایس آئی ڈی بی کماوت، ہیڈ کانسٹیبل کنک سنگھ ڈابھی اور کانسٹیبل راجو ڈھابی نے ہائی کورٹ کو بتایا ہے کہ اس معاملہ میں انہیں سزا دینے کی بجائے عدالت ان سے کہے کہ اگر وہ قصوروار پائے جاتے ہیں تو شکایت کنندہ کو معاوضہ ادا کریں۔

یہ بھی پڑھیں:

Muslim men flogged by cops گجرات میں مسلم نوجوانوں کی بے رحمی سے پٹائی

ملزم پولیس والوں نے عدالت میں یہ بھی کہا تھا کہ انہوں نے پولیس سروس میں 15 سے 20 سال کی سروس مکمل کی ہے لہٰذا اگر انہیں سزا ہوتی ہے تو اس سے ان کے کریئر پر برا اثر پڑے گا اور اس سے ان کے اہل خانہ بھی متاثر ہوں گے۔ اگر عدالت انہیں سزا دینے کی بجائے متاثرین کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیتی ہے۔ انہیں بطور ملزم سخت نتائج کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ملزم کے وکیل نے بھی عدالت کے سامنے شکایت کنندگان کے ساتھ معاملات طے کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ متاثرین کے وکیل نے ملزم کی جانب سے عدالت میں تصفیہ اور معاوضہ کے حوالے سے دی گئی تجویز کے بارے میں اپنے موکل سے بات کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اس معاملہ پر مزید سماعت 16 اکتوبر کو ہوگی۔

واضح رہے کہ گجرات کے کھیڑا ضلع کے اندھیلا گاؤں میں پولیس کے ذریعہ مسلم نوجوانوں کی سرعام پٹائی کا ویڈیو بھی تیزی سے وائرل ہوا تھا جس میں ایک پولیس اہلکار متاثرین کے ہاتھ کھینچ کر ستون کے پاس کھڑا تھا اور دوسرا پولیس اہلکار متاثرین کو لاٹھی سے مارتا ہوا نظر آیا پولیس کی بربریت کے متاثرین نے انصاف کے حصول کے لیے گجرات ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی متاثرین کا دعوی ہے کہ سرعام پٹائی کر پولیس نے سپریم کورٹ کے رہنما خطوط کے خلاف ورزی اور ان کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے ہائی کورٹ نے پورے واقعہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے چاروں پولیس اہلکاروں کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔

اس معاملہ پر سماعت کے دوران ملزم پولیس انسپیکٹر اے وی پرمار نے گجرات ہائی کورٹ میں حلف نامہ داخل کیا اور کہا کہ متاثرہ کو کولہے پر ڈنڈے مارنا یقینا ناقابل قبول اور نامناسب ہے لیکن اسے حراستی تشدد نہیں کہا جا سکتا اس لیے اس معاملہ میں توہین عدالت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ اے وی پرمار ہی تھے جنہوں نے اس واقعہ کے بعد متاثرین کی پٹائی کی جبکہ راجو ڈھابی نامی کانسٹیبل نے متاثرین کا ہاتھ پکڑا تھا پی آئی پرمار کے حلف نامے کی بنیاد پر راجو ڈھابی نے یہ کہا کہ اگر متاثرہ کو لاٹھی سے مارنا حراستی تشدد نہیں ہے تو متاثرہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے ستون کے پاس کھڑا کرنا بھی حراستی تشدد نہیں کہا جا سکتا اس معاملہ کے دیگر دو ملزمان پی ایس آئی کماوت اور ہیڈ کانسٹیبل کنک سنگھ ڈھابی نے بھی عدالت میں یہی بات کہی عدالت تمام پولیس اہلکاروں پر توہین عدالت کا الزام عائد کیا اور چاروں پولیس اہلکاروں نے غیر مشروط معافی بھی مانگی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.