اقلیتی اداروں میں اساتذہ کی تقرری کے معاملے میں جمیعت علماء ہند گجرات کی جانب سے ہائی کورٹ میں ایک عرضی داخل کی گئی ہے جس میں اقلیتی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی تقرری کے تعلق سے جو رعایت دی جاتی تھی، اسے دوبارہ بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
بھارت کے آئین میں اقلیتی اداروں کے قیام سے متعلق التزامات موجود ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ اقلیتی طبقے اپنے تعلیمی ادارے کے قیام اور اساتذہ کی تقرری کے لیے خود مختار ہوں گے۔
مگر اب حکومت نے اقلیتی اداروں پر بھی اپنی نکیل کس دی ہے۔ اقلیتی تعلیمی اداروں کی خودمختاری میں نقب لگانے کی کوشش جاری ہے۔
گذشتہ دنوں گجرات حکومت کی جانب سے ایک سرکیولر جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت اب مائناریٹی اداروں میں اساتذہ کی تقرری کے دوران اپنا نمائندہ موجود رکھے گی یا امیدوار سے سیدھے طور پر انٹرویو کرکے تقرری کرے گی۔
اس حوالے سے اب گجرات کے تمام اقلیتی ادارے پریشان ہیں اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہیں۔ اسی ضمن میں جمیعت علماء ہند گجرات نے گجرات ہائی کورٹ میں ایک عرضی داخل کی ہے تاکہ کہ اس معاملے کا کوئی اطمینان بخش حل نکالا جاسکے۔
اس تعلق سے جمعیت علماء ہند گجرات کے جنرل سیکریٹری نے کہا کہ مائناریٹی اداروں کو اپنے اساتذہ کی تقرری کے تعلق سے رعایت دی جاتی تھی لیکن حکومت نے اسے چھیننے پر آمادہ ہے۔ اب حکومت کا نمائندہ ہی اساتذہ کی تقرری کرے گا جس سے کئی نقصانات ہوسکتے ہیں۔
مزید پڑھیں:
انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر اردو جاننے والوں کو ہی اردو اسکولوں کا ٹیچر بنایا جاتا ہے لیکن اس سرکلیولر کے طریقے سے کی گئی تقرری میں جو اردو نہیں جانتا اس کی بھی اردو اسکولوں میں تقرری کی جا سکتی ہے، جس سے اداروں اور طلبہ کو کافی نقصان ہو سکتا ہے۔
اس لیے ہم نے جمعت علماء ہند گجرات کی طرف سے گجرات ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی ہے جو مائناریٹی اسکولوں میں تقرری کے تعلق سے جو رعایت دی جاتی تھی اسے بحال کرنے مطالبہ کیا ہے۔