اسی دوران ان بی جے پی کے ایم پی سبرمنیم سوامی نے ایک ٹویٹ کرکے کہا ہے کہ اگر ایک بار پھر آنندی بین پٹیل کو گجرات کا وزیر اعلیٰ بنا دیا جاتا ہے، تو ریاست گجرات میں کورونا کے بڑھتے کیسز اور اموات کی تعداد پر روک لگ سکتی ہے، جس سے سیاست اور تیز ہو گئی ہے۔
سماجی کارکن دانش قریشی کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے احمدآباد میونسپل کارپوریشن کے کمشنر وجے نہرا کو سیلف کورنٹین کیا گیا اور ان کی جگہ مکیش کمار نے چارج سنبھالا اور جب سے وہ آئے تب سے تغلقی فرمان جاری کرنا شروع کر دیا اور اب گجرات کے وزیر اعلی پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں، کیونکہ گجرات میں کورونا کے معاملے روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں اس کے پیچھے ذمہ دار کون ہے؟ میرے سوال ہے کہ نمستے ٹرمپ کو کورونا کا ذمہ دار کیوں نہیں ٹھہرایا جا رہا ہے۔
گجرات حکومت کی ناکامیوں کو دیکھتے ہوئے وزیر اعلیٰ کی کرسی خطرے میں نظر آ رہی ہے۔
اس تعلق سماجی کارکن علی سید نے کہا کہ بی جے پی کو اچانک سے سب کچھ کام کرنے کی عادت ہے، اچانک سے جس طریقے سے نوٹ بندی کی اور اچانک سے لاک ڈاؤن کردیئے گئے اور اب ہر روز قانون بدلے جا رہے ہیں اور 2017 کے الیکشن کے بعد اچانک سے وجے روپانی کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔ ان کے ہر فیصلہ اچانک سے ہوتے ہیں اور لوگوں کو چکاچوند کرنے والے ہوتے ہیں۔
ایسے میں گجرات کے وزیر اعلیٰ تو بدل دینے کا فیصلہ بھی اچانک ہی لیا جائیگا۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو کیوں وزیراعلی بنایا جاتا ہے؟ جنہیں اچانک سے ہٹانا پڑے۔
کیا گجرات میں اب کوئی ایسا نیا چہرہ ہے، جسے نیا سی ایم بنایا جا سکے۔ اگر سی ایم بدلتا ہے تو کیا سی ایم بدلنے سے پالیسی بدل جائے گی یا جو سی ایم نیا لانے والے ہیں وہ بہت زیادہ قابل آدمی ہوگا؟
صرف انسان بدلنے سے حالات نہیں بدل سکتے، کورونا پر قابو نہیں پایا جا سکتا ہے۔
تو وہیں سماجی کارکن دیوسائی نے کہا کہ گجرات میں افواہ پھیلی تھی کہ وزیراعلیٰ بدلنے والے ہیں کیونکہ انتظامیہ اور حکومت کورونا کو روکنے کے لئے پوری طرح ناکام رہی ہیں۔
کورونا کو روکنے کے لئے جس طریقہ سے حکومت کو قدم اٹھانا چاہئے وہ نہیں اٹھائے گئے، احمدآباد کے حالات بدتر ہوتے جا رہے ہیں ایسے میں وزیراعلیٰ کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے حالات کے پیش نظر استعفیٰ دے دینا چاہیے چونکہ کورونا کو روکنے میں گجرات حکومت پوری طرح ناکام نظر آرہی ہے۔