احمدآباد:ریاست گجرات میں 2002 کے فسادات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔عبدلمجید 2002 تک احمدآباد کے نروڈا پاٹیہ علاقے میں رہتے تھے اصل میں ان کی فیملی کرناٹک سے تعلق رکھتی ہے۔ان کے گھر والے 2002 سے 35 سال قبل احمدآباد میں آ کر بس گئے۔ عبدالمجید محمد عثمان شیخ نروڈا پاٹیہ میں موجود ایک قبرستان میں قبر کھود کر زندگی گزار رہے تھے. ساتھ ہی وہ بی جے پی کے کارکن بھی تھے۔ لیکن جیسے ہی 27 فروری 2002 گودھرا ٹرین جلاءی گئی۔ اس کے بعد 28 فروری کو ایک ہجوم نے نروڈا پاٹیہ پر حملہ پر قتل عام کیا جس میں عبدالمجید نے اپنی فیملی کے 8 لوگوں کا قتل عام ہوتے ہوے دیکھا۔
عبدالمجید نے کہا کہ آج 21 سال گزر گئے لیکن آج بھی وہ خطرناک منظر ہماری آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتا۔ آج بھی ہمارے آنسو نہیں سکھے۔ ہم آج بھی ڈر ڈر کر زندگی گزار رہے ہیں۔ گودھرا ٹرین کے جلنے کے بعد بند کا اعلان کیا گیا تھا۔ دوسرے ہی دن 28 فروری کو نروڈہ پاٹیہ کے چاروں طرف سے بڑی تعداد میں ہجوم ہمارے گھر کی طرف طر دوڑ کر آنے لگا۔ انہوں نے ہم پر حملہ کیا۔ اس وقت میں نروڈا پاٹیہ جواہر نگر می میں رہتا تھا۔ انہوں نے کہاکہ میری بیوی حاملہ تھی۔ اس کا ریپ کر کے اسے زندہ جلا دیا۔ میری بیٹی صوفیہ کو بھی جنسی زیادتی کا ہدف بنایا گیا. میرے دوسرے بچوں کو بھی جلا دیا گیا ہے میرے گھر سے 8 انسان اس فساد میں ہلاک ہوے اس وقت میرا ایک لڑکا بچ گیا لیکن وہ بھی 20 فیصد جلا ہوا ہے۔ آج وہ میرے ساتھ کرانے کی دوکان چلاتا ہے. 21 سال ہو گئے میں بہت افسوس میں جی رہا ہوں۔
یہ بھی پڑھیں:Jamaat-e-Islami Hind Gujarat جماعت اسلامی ہند گجرات کے صدر شکیل احمد راجپوت سے خصوصی گفتگو
ان کا کہنا ہے کہ ہم نے کوثر جنسی زیادتی کاواقعہ دیکھا۔ اس کے بچے کو بھی مار دیا گیا. اس وقت مایا کوڈوانی وہاں کی رکن اسمبلی تھی ۔اس نے خود وہاں آکر مسلمانوں کومارنے کے لئے کہا۔ ہم نے کورٹ میں اس کے خلاف گواہی دی۔ بابو بجرنگی نے جنسی زیادتی کی واردات کو انجام دیا۔ اسے بھی ہم نے دیکھا اس کا نام بھی بتایا انہیں سزا ہوئی لیکن آج وہ ضمانت پر گھوم رہیں ہیں۔