کشمیر کے لوگ مہمان نوازی کے لیے پوری دنیا میں جانے جاتے ہیں۔ یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ یہ وہی کشمیری ہیں جو کشمیر میں ملیٹینسی شروع ہونے کے بعد یہاں موجود کشمیری پنڈت بھائیوں کے دکھ سکھ اور ان کے آخری رسومات میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔
گاندربل کے وسن علاقے میں اس وقت ہندو-مسلم بھائی چارہ کی مثال دیکھنے کو ملی جب رادھا کرشن نام کے ایک بزرگ کشمیری پنڈت کا انتقال ہوا۔ ان کی آخری رسومات مقامی مسلمانوں نے انجام دینے کے علاوہ اس کے لیے درکار چیزوں کا بھی انتظام کیا۔
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کشمیری پنڈت انل رینا نے بتایا کہ سنیل رینا کے انتقال کے بعد مقامی مسلمانوں نے ان کے آخری رسومات کے لیے ساری ضروری چیزیں جمع کیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ پہنچے تب سرینگر سے پنڈت کو بلا کر پوجا پاٹھ کا کام کرایا۔
یہ بھی پڑھیں: زیادہ قیمت پر گوشت فروخت کرنے پر دکان سیل
ایک دوسرے کشمیری پنڈت سنیل کمار بھٹ نے بتایا کہ حکومت کو ایسے اقدام کرنے چاہیے کہ ساری برادری کے لوگ ایک ساتھ مل کر رہیں۔ جو ماحول آج سے بیس تیس سال پہلے تھا ویسا ماحول ہو جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہندو-مسلم سب ایک ساتھ رہیں۔
ای ٹی وی کے نمائندے کے ساتھ بات کرتے ہوئے مقامی مسلمان شیخ بشیر نے کہا کہ اگرچہ کشمیر میں 1990 کے بعد حالات خراب ہو چکے تھے، اور وسن میں رہنے والے درجنوں پنڈت گھرانے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، لیکن رادھا کرشن کے گھر کے لوگ یہاں سے ہجرت کرنے کے بجائے مسلمانوں کے ساتھ ہی رہے اور مقامی مسلمان ان کے سکھ دکھ میں ہمیشہ شامل ہوتے رہے۔