وادی کشمیر میں اگرچہ کئی جنگلات ہانگل کے لیے محفوظ جگہ مانے جاتے ہیں اور اس سلسلے میں کئی سال قبل حکومت نے ہانگل کے تحفظ کے لیے بریڈنگ سینٹر بھی قائم کیا تھا، تاہم ابھی تک اس کو مکمل نہیں کیا گیا۔
لال ہرن کی نسل کے یہ کشمیری ہانگل کئی سالوں سے کم ہوتے جارہے ہیں اور ایک سنسس کے مطابق سنہ 2017 میں 214 اور سنہ 2019 میں 237 ریکارڈ میں شامل ہے۔
اگرچہ سرینگر کا داچھیگام اور شمالی کشمیر کے تلیل علاقے ناراناگ کے بالکل نزدیک پڑتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ناراناگ میں بھی کشمیری ہانگل کا یہ جھنڈ نظر آگیا۔
اگرچہ گزشتہ کئی برسوں سے ہانگل کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے، جس پر ماہرین میں تشویش پائی جارہی تھی۔ تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ جنوبی کشمیر کی سب ضلع ترال سے تین کلومیٹر دور وائلڈلائف کے تحت آنے والے جنگلات شکار گاہ میں حال ہی میں کشمیری ہانگل کی ایک کثیر تعداد دکھائی دے اور اس کے بعد اب ضلع گاندربل کے کنگن علاقے کے ناراناگ میں بھی کشمیری ہانگل دیکھے گئے۔
جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہاں ہانگل کی تعداد میں اب آہستہ آہستہ اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔گریز اور تلیل علاقوں میں خاص طور پر سردیوں میں ہرن، باراسنگہ، ہانگل کے علاوہ کئی نایاب جانور پہاڑیوں سے نیچے آکر دریا کشن گنگا کے کناروں پر دھوپ سینکتے اور پانی پیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
تاہم مقامی لوگوں کے مطابق انتظامیہ کی طرف سے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جارہے ہیں جسے ان نایاب اور ختم ہوتے ہوئے کل کو بیچا جائے۔
ماہرین نے کشمیری ہانگل کی موجودگی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب ان بچے جانوروں کی حفاظت کرنا ہم سب کی ملی زمہ داری ہے۔
انہوں نے انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ ایسی جگہوں پر وائلڈلائف اور محکمہ جنگلات کے ملازمین کو تعینات کیا جائے تاکہ یہ بچے جانور بھی کئی شکاری کا شکار نہ بن جائے۔