مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے ضلع ڈوڈہ میں نیشنل کانفرنس کے ضلع دفتر میں شہدائے کشمیر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک خصوصی تقریب منعقد کی گئی۔
تقریب میں ڈوڈہ ضلع کے صدر خالد نجیب سہروردی نے کہا کہ 13 جولائی 1931 کا دن ریاست جموں وکشمیر کے لیے کافی زیادہ اہمیت کا حامل ہے، اس روز شہدائے کشمیر نے اپنے خون سے اس وطن کی آبیاری کی ہے اور سفاکانہ تخت و تاج کو اپنی قربانیوں سے ہلاکر رکھ دیا تھا، شہدائے کشمیر کی قربانیاں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
انھوں نے کہا کہ آج کا دن ہماری تاریخ میں یہ ایک اہم دن ہے کیونکہ اس دن کی قربانیوں نے ایک طویل جدوجہد کی بنیاد رکھی جو اب بھی جاری ہے، ہمیں شہدائے کشمیر کی قربانیوں کو نہیں بھولنا چاہیے، دنیا کی تاریخ میں شاید ہی کہیں اس طرح کی قربانی یا شہادتیں ہوئی ہوں جہاں ایک آذان کو پورا کرنے کے لیے 22 لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہو۔
دور حاضر میں شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنا اور بھی اہمیت کا حامل ہے، قوم کی بقا کے لیے مختلف طبقہ فکر کے لوگوں کا متحد ہونا ناگزیر ہوگیا ہے۔
مین سڑیم لیڈران کی نظر بندی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب ریاست میں کوئی مین سڑیم لیڈر نہیں ہے، مین سڑیم کو پانچ اگست کے روز حکومت نے ختم کر دیا تھا جب طاقت کے بَل پر سب کو جیل خانوں اور گھروں میں ہی قید کر دیا گیا تھا۔
ریاست کی وحدت اس کی سالمیت کو زندہ رکھنا نیشنل کانفرنس کی اوّلین ترجیح ہے، پورا ایک برس مکمل ہوگیا کہیں ترقی کا نام و نشاں نظر نہیں آ رہا ہے جس کے حکومت نے ریاست کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد دعوٰی کیا تھا جبکہ اس کےبرعکس پورا نظام ہی درہم برہم ہو گیا اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔
حکومت نے ملک کے عوام کو گمراہ کیا کہ جموں و کشمیر میں تعلیم نظام مکمل طور پر فعال نہیں ہے جو سال 1950 میں یہاں پر لاگؤ کیا گیا تھا۔ جموں و کشمیر کی عوام سماجی اقتصادی، معاشرتی تمام تر معاملات میں دیگر ریاستوں سے آگے ہیں لیکن حکومت کی کوشش ہے کہ ہم بھی اُن کے ساتھ نیچے آ جائیں غریبی ہو بھوک مری ہو یہ حکومت کی سازش ہے۔