اس کی ایک بہترین مثال سنجنا گوئل ہیں جو مسکولر ڈسٹروفی مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود اس مرض کو کبھی اپنے خوابوں میں رکاوٹ بننے نہیں دیا۔
سنجنا ایک کامیاب بزنس خاتون ہیں۔ انہوں نے ایشیا کا سب سے بڑا مسکولر ڈسٹروفی ہسپتال قائم کیا ہے اور وہ ماناو مندر این جی او کی چیرمین بھی ہیں۔ جس کے تحت اس مرض میں مبتلا مریضوں کی زندگی کو بہتر بنانے کےلیے کام کیا جاتا ہے۔
سنجنا گذشتہ 18 برسوں سے وہیل چیر پر زندگی گزار رہی ہیں جبکہ انہوں نے سولان میں ’اسٹیچ اینڈ اسٹائل‘ نامی سلائی کی دوکان کھولی ہے جس کی وجہ سے درجنوں خواتین کو روزگار فراہم ہوا ہے۔
انہوں نے بی ایس سی ہوم سائنس میں پی جی ڈپلومہ اور پنجاب یونیورسٹی سے فیشن ڈیزائننگ کا کورس کیا ہے۔ ای ٹی وی بھارت سے بات کرتےہوئے سنجنا نے بتایا کہ خود اعتمادی سے کسی بھی مرض پر کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔
سنجنا کے مطابق ہر انسان میں خوداعتمادی ہونی چاہئے۔ پٹھوں کی کمزوری کی بیماری کا سب سے بہترین علاج خوداعتمادی ہی ہے۔ سنجنا، اس بیماری میں مبتلا بچوں کو دوائیں فراہم کرتی ہیں اور ان کے ماں باپ میں شعور بیداری پیدا کرتی ہیں۔
یہ ہولناک بیماری ایک ہی خاندان کے کئی افراد کو اپنی زد میں لے لیتی ہے۔ سنجنا نے کہا کہ میں اپنے دونوں بھائیوں کو اس بیماری سے پریشان دیکھا ہے اور اسکول کے دنوں میں مجھے پتہ چلا تھا کہ میں بھی اس مرض میں مبتلا ہوں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس بیماری کے بعد خود میں، میری کوئی مدد نہیں کرسکتی تھی لیکن میں نے مشکلات کا سامنا کیا اور آج میں دوسروں کی مدد کے قابل بن گئی ہوں۔ زندگی میں کبھی کبھی تکالیف بھی اہمیت رکھتے ہیں۔
سنجنا نے کہا کہ مانوو مندر میں آنے والے ہر ایک مریض کو خوداعتمادی سے رہنا سکھایا جاتا ہے جو اس مرض کی سب سے بڑی دوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بیماری میں مبتلا بچوں اور بڑوں کو فزیوتھراپی اور ہائیڈروتھراپی کی مدد سے خوداعتمادی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کی بدولت لوگ اعتماد کے ساتھ زندگی گذارنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔
سنجنا نے حکومت سے مسکولر ڈسٹرافی میں مبتلا لوگوں کی بھرپور مدد کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی مدد کی وجہ سے ایسے مریضوں میں خود اعتمادی پیدا ہوسکتی ہے۔
انہوں نے ان مریضوں کے افراد خاندان اور دیگر افراد کو ان سے محبت سے پیش آنے کا مشورہ دیا۔