قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلا ف شاہین باغ میں خواتین مظاہرین کے موقف کو سپریم کورٹ میں اٹھانے کی یقین دہانی کراتے ہوئے مذاکرات کار سنجے ہیگڑے اور سادھنا رام چندرن نے کہا کہ 'ہم آپ کے درد کو سمجھتے ہیں، اور سپریم کورٹ کے سامنے آپ کے مسئلہ کو اٹھائیں گے'۔
انہوں نے شاہین با غ مظاہرین سے دل کا راستہ کھولنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ آپ راستہ کھولیے پھر دیکھیے کہ آپ کے لیے کتنے راستے کھلتے ہیں۔
انہوں نے اتفاق رائے سے مسئلہ کو حل کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ چاہتا ہے کہ آپ کا احتجاج بھی جاری رہے اور راستہ بھی کھل جائے۔
سپریم کورٹ نے آپ کے حق کو تسلیم کیا ہے اس لیے آئین نے آپ کو اس کا حق آئین نے دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے مذاکرات کار نے مظاہرین کے سکیورٹی کے خدشے پر دہلی پولیس نے تحریری یقین دہانی کرانے کو کہا۔
مظاہرین نے تحفظ کی بات کرتے ہوئے کہا کہ جب بریکیڈ ہٹاکر دو بار گولی چلانے والے آسکتے ہیں، تو راستہ کھل جانے پر کوئی بھی آسکتا ہے تو مظاہرین کے تحفظ کی ذمہ داری کس پر ہوگی۔
اس پر مذاکرات کار نے کہا کہ آپ کی حفاظت کی ذمہ داری سب پر ہے، آپ کی حفاظت کی جائے گی۔
انہوں نے دوسروں کی تکلیف کو محسوس کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا جو درد ہے اس کا درد ہے اور جو اس کا درد ہے وہ ہمارا درد ہے، ہمیں کسی کے لیے تکلیف کا باعث نہیں بننا چاہیے۔
آج بھی مظاہرین کو تین بجے سے مذاکرات کار کے آنے کا انتظار تھا، لیکن سپریم کورٹ کے مقرر کردہ مذاکرات کار سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ سنجے ہیگڑے اور سادھنا رام چندرن شام کے چھ کے بعد پہنچے۔
سپریم کورٹ کے مذاکرات کی بار بار سڑک کھولنے کی درخواست اور سپریم کورٹ نے مذاکرات مقرر کرنے اور راستہ کھولنے کی عرضی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مظاہرہ کرنے والی خواتین محترمہ ثمینہ اور ملکہ خاں نے کہا کہ قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلا ف سپریم کورٹ میں 144 سے زائد عرضی داخل ہیں جب کہ روڈ کھلوانے کے سلسلے میں محض چھ عرضی داخل کی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح سپریم کورٹ نے ان چھ عرضیوں پر جلدی کارروائی کی ہے اور مذاکرات کار مقرر کیے ہیں اسی طرح 144 عرضیوں پر جلد سماعت کرے گی اور مذاکرات کار مقرر کرے۔
آج زیادہ ٹریفک کی وجہ سے 45 منٹ کے لیے سریتا وہار کالندی کنج راستہ کھولا گیا تھا۔
قبل ازیں قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ خاتون مظاہرین نے مذاکرات کے عمل کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس عمل کا خیرمقدم کرتے ہیں، لیکن جب تک حکومت اس سیاہ قانون کو واپس نہیں لیتی اس وقت تک مظاہرہ ختم کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ مذاکرات کار چاہتے ہیں کہ ہم گروپ میں بات کریں یا کمیٹی تشکیل دیکر بات کریں لیکن مظاہرین اس کے حق میں نہیں ہیں۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ جو بھی بات چیت ہو اوپن فرنٹ پر ہو اور اسٹیج پر ہو تاکہ سب کو معلوم ہوسکے کہ کیا بات چیت ہورہی ہے، اسی لیے مظاہرین میڈیا کی موجودگی کے حق میں ہیں اور مظاہرین نے میڈیا کو آنے دیا تھا، جب کہ مذاکرات کار میڈیا کی موجودگی کے خلاف ہیں، یہی وجہ ہے دونوں دن انہوں نے میڈیا کو وہاں سے ہٹا دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ شاہین باغ مظاہرہ کی خاص بات یہی ہے کہ اس کا کوئی رہنما نہیں ہیں اور خواتین ہی سب کچھ سنبھال رہی ہیں اور مرد حضرات تعاون کرتے ہیں۔
اسٹیج کا سارا کام کاج خواتین ہی سنبھالتی ہیں، اس لیے کسی گروپ یا کمیٹی کے طور پر بات کرنے کا کوئی سوال نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسئلہ صرف سڑک نہیں ہے بلکہ سڑک پر بیٹھی خواتین کا ہے، مذاکرات کار کو ہماری تکلیفوں کو سمجھنا ہوگا اور وہ سمجھ بھی رہے ہیں، انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ہم نے صرف 150 میٹر سڑک پربند کیا ہے جب کہ ساری سڑکوں کو پولیس نے بند کیا ہے۔
مذاکرات کار کے بار بار بند سڑک کا نام لیے جانے اور اس سے ہونے والی تکلیفوں کا ذکر کرنے پر مظاہرین کا احساس ہے کہ پہلے ہماری تکلیف ہے۔ سڑک بند ہونے سے ہونے والی تکلیف ایک دو گھنٹے کی ہے، لیکن اس سیاہ قانون کو واپس نہیں لیا گیا تو ہماری پوری نسل تکلیف میں آجائے گی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ نے راستہ کھلوانے کے لیے مذاکرات تو بھیجے لیکن ہمارے مسئلے کے حل کے لیے انتظامیہ کو کوئی حکم نہیں دیا۔
مظاہرین نے کہا کہ مذاکرات کار نے ہمارے درد کا احساس کیا ہے اور ہمیں امید ہے کہ مذاکرات کار سپریم کورٹ کو ہماری تکلیفوں،پریشانیوں اور ہمارے احساسات سے آگاہ کریں گے۔
مظاہرین میں شامل خواتین میں سے سماجی کارکن محترمہ ملکہ خاں، محترمہ ثمینہ، محترمہ اپاسنا، محترمہ نصرت آراء نے کہا کہ مسئلہ کا حل کیے بغیر ہم لوگ روڈ خالی کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم لوگ روڈ پر بیٹھی ہیں تو اب تک انتظامیہ میں سے کوئی بھی ہماری بات سننے کے لیے نہیں آیا ہے، تو روڈ خالی کردینے اور مظاہرہ کو منتقل کردینے سے پھر ہماری بات کون سنے گا۔
انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کا ارادہ ہمیں تھکا دینے کا ہے تاکہ ہم تھک کر یہاں سے بھاگ جائیں، انہوں نے عزم کے ساتھ کہا کہ ہم تھکنے والے نہیں ہیں اور اس وقت تک مظاہرہ جاری رکھیں گے جب تک اس سیاہ قانون کو واپس نہیں لیا جاتا۔
اس کے علاوہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف طلبہ اور عام شہری احتجاج کررہے ہیں اور 24 گھنٹے کا مظاہرہ جاری ہے جس میں اظہار یکجہتی کے لیے اہم لوگ آرہے ہیں۔
اس کے علاوہ قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف دہلی میں ہی درجنوں جگہ پر خواتین مظاہرہ کررہی ہیں۔
خیال رہے کہ نظام الدین میں شیو مندر کے پاس خواتین کامظاہرہ جاری ہے، تغلق آباد میں خاتون نے مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن پولیس نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ان لوگوں کو وہاں سے بھگادیاتھا۔
خوریجی خاتون مظاہرین کا انتظام دیکھنے والی سماجی کارکن اور ایڈووکیٹ اور سابق کونسلر عشرت جہاں نے بتایا کہ مظاہرین یہاں پرامن طریقے سے خواتین کا احتجاج جاری ہے مظاہرہ میں تنوع اور حکومت کی توجہ مبذول کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ نیا کررہے ہیں اور پچاس سے زائد میٹرسیاہ کپڑے پر نو سی اے اے، نو این آر سی، نو این پی آر لکھ کر احتجاج کیا اور اسی کے ساتھ 11 میٹر سیاہ کپڑے کا آنچل بناکر بھی احتجاج کیا۔
اسی کے ساتھ اس وقت دہلی میں حوض رانی، گاندھی پارک مالویہ نگر، سیلم پور جعفرآباد، ترکمان گیٹ، بلی ماران، کھجوری، اندر لوک، شاہی عیدگاہ قریش نگر، مصطفی آباد، کردم پوری، نور الہی کالونی، شاشتری پارک، بیری والا باغ، نظام الدین، جامع مسجد سمیت دیگر جگہ پر مظاہرے ہورہے ہیں تاہم اس کے علاوہ چننئی میں سی اے اے کے خلاف مظاہر ہ جاری ہے۔
اس کے علاوہ راجستھان کے بھیلواڑہ کے گلن گری، کوٹہ، رام نواس باغ جے پور، جودھپور اور دیگر مقامات پر، اسی طرح مدھیہ پردیش کے اندور میں کئی جگہ مظاہرے ہور ہے ہیں۔
اندور میں کنور منڈلی میں خواتین کا زبردست مظاہرہ ہورہا ہے اور یہاں خواتین بہت ہی عزم کے ساتھ مظاہرہ کر رہی ہیں، اندور کے علاوہ مدھیہ پردیش کے بھوپال، اجین، دیواس، مندسور، کھنڈوا، جبل پور اور دیگر مقامات پر بھی خواتین کے مظاہرے ہورہے ہیں۔
اترپردیش قومی شہریت(ترمیمی) قانون، این آر سی، این پی آر کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کے لیے سب سے مخدوش جگہ بن کر ابھری ہے جہاں بھی خواتین مظاہرہ کرنے کی کوشش کررہی ہیں وہاں پولیس طاقت کا استعمال کرتے ہوئے انہیں ہٹا دیا جاتا ہے۔
وہاں 19دسمبر کے مظاہرہ کے دوران 22 لوگوں کی ہلاکت ہوچکی ہے، خواتین گھنٹہ گھر میں مظاہرہ کررہی ہیں ا ور ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے اپنی موجودگی درج کروارہی ہیں۔
اترپردیش میں سب سے پہلے الہ آباد میں چند خواتین نے احتجاج شروع کیا تھا، اب ہزاروں میں ہیں، خواتین نے روشن باغ کے منصور علی پارک میں مورچہ سنبھالا۔
اس کے بعد کانپور کے چمن گنج میں محمد علی پارک میں خواتین مظاہرہ کررہی ہیں۔
اترپردیش کے ہی سنبھل میں پکا باغ، دیوبند عیدگاہ، سہارنپور، مبارک پور اعظم گڑھ، اسلامیہ انٹر کالج بریلی، شاہ جمال علی گڑھ، اور اترپردیش کے دیگر مقامات پر خواتین مظاہرہ کررہی ہیں۔
شاہین باغ دہلی کے بعد سب سے زیادہ مظاہرے بہار میں ہورہے ہیں اور وہاں دلت، قبائلی سمیت ہندوؤں کی بڑی تعداد مظاہرے اور احتجاج میں شامل ہورہی ہے۔
ارریہ فاربس گنج کے دربھنگہ ٹولہ عالم ٹولہ، جوگبنی میں خواتین مسلسل احتجاجی مظاہرہ کررہی ہیں، ایک دن کے لیے جگہ جگہ خواتین جمع ہوکر مظاہرہ کررہی ہیں۔
اسی کے ساتھ مردوں کا مظاہرہ بھی مسلسل ہورہا ہے، کبیر پور بھاگلپور، گیا کے شانتی باغ میں گزشتہ 29 دسمبر سے خواتین مظاہرہ کررہی ہیں اس طرح یہ ملک کا تیسرا شاہین باغ ہے، جبکہ دوسرا شاہین باغ خوریجی ہے۔
سبزی باغ پٹنہ میں خواتین مسلسل مظاہرہ کر رہی ہیں، پٹنہ میں ہی ہارون نگر میں خواتین کا مظاہرہ جاری ہے، اس کے علاوہ بہار کھکڑیا کے مشکی پور میں، نرکٹیا گنج، مونگیر، مظفرپور، دربھنگہ، مدھوبنی میں ململ اور دیگر جگہ، ارریہ کے مولوی ٹولہ، سیوان، چھپرہ، کھگڑیا میں مشکی پور، بہار شریف، جہاں آباد، گوپال گنج، بھینساسر نالندہ، موگلاھار نوادہ، مغربی چمپارن، بیتیا، سمستی پور، تاج پور، کشن گنج کے چوڑی پٹی اور متعدد جگہ، بیگوسرائے کے لکھمنیا علاقے میں زبردست مظاہرے ہو ہے ہیں۔
بہار کے ہی ضلع سہرسہ کے سمری بختیارپور سب ڈویزن کے رانی باغ میں خواتین کا بڑا مظاہرہ ہورہا ہے۔
شاہین باغ، دہلی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی، آرام پارک خوریجی،حضرت نظام الدین، قریش نگر عیدگاہ، اندر لوک، نورالہی دہلی'۔
سیلم پور فروٹ مارکیٹ، دہلی، جامع مسجد، دہلی، ترکمان گیٹ، دہلی، ترکمان گیٹ دہلی، بلی ماران دہلی، شاشتری پارک دہلی، کردم پوری دہلی، مصطفی آباد دہلی، کھجوری، بیری والا باغ، شا، رانی باغ سمری بختیارپورضلع سہرسہ بہار، سبزی باغ پٹنہ، ہارون نگر، پٹنہ 'شانتی باغ گیا بہار، مظفرپور، ارریہ سیمانچل بہار، بیگوسرائے بہار،پکڑی برواں نوادہ بہار، مزار چوک، چوڑی پٹی کشن گنج' بہار، مگلا کھار' انصار نگر نوادہ بہار، مغربی چمپارن، مشرقی چمپارن، دربھنگہ میں تین جگہ، مدھوبنی، سیتامڑھی، سمستی پور'تاج پور، سیوان،گوپال گنج، کلکٹریٹ بتیا' ہردیا چوک دیوراج، نرکٹیاگنج، رکسول، کبیر نگر بھاگلپور، رفیع گنج، مہارشٹر میں دھولیہ، ناندیڑ، ہنگولی،پرمانی، آکولہ، سلوڑ، پوسد، کونڈوا۔
پونہ، ستیہ نند ہاسپٹل، مالیگاؤں'جلگاؤں، نانڈیڑ، پونے، شولاپور، اور ممبئی میں مختلف مقامات، مغربی بنگال میں پارک سرکس کالکاتا' مٹیا برج، فیل خانہ، قاضی نذرل باغ، اسلام پور، مرشدآباد، مالدہ، شمالی دیناجپور، بیربھوم، داراجلنگ، پرولیا۔
علی پور دوار، اسلامیہ میدان الہ آبادیوپی، روشن باغ منصور علی پارک الہ آباد یوپی، محمد علی پارک چمن گنج کانپوریوپی، گھنٹہ گھر لکھنو یوپی، البرٹ ہال رام نیواس باغ جے پور راجستھان، کوٹہ، اودے پور، جودھپور، راجستھان، اقبال میدان بھوپال مدھیہ پردیش، جامع مسجد گراونڈ اندور، مانک باغ اندور، اجین، دیواس، کھنڈوہ،مندسور، گجرات کے بڑودہ، احمد آباد، جوہاپورہ، بنگلورمیں بلال باغ، منگلور، شاہ گارڈن، میسور، پیربنگالی گراؤنڈ، یادگیر کرناٹک، آسام کے گوہاٹی، تین سکھیا۔
ڈبرو گڑھ، آمن گاؤں کامروپ، کریم گنج، تلنگانہ میں حیدرآباد، نظام آباد، عادل آباد، آصف آباد، شمس آباد، وقارآباد، محبوب آباد، محبوب نگر، کریم نگر، آندھرا پردیش میں وشاکھا پٹنم، اننت پور،سریکاکولم، کیرالہ میں کالی کٹ، ایرناکولم، اویڈوکی، ہریانہ کے میوات اور یمنانگرفتح آباد، فریدآباد، جارکھنڈ کے رانچی، کڈرو، لوہر دگا، بوکارو اسٹیل سٹی، دھنباد کے واسع پور، جمشید پور وغیرہ میں بھی خواتین مظاہرہ کررہی ہیں۔