ETV Bharat / state

بھارت آخر کہاں جارہا ہے؟

بھارت کے موجودہ حالات کے پس منظر میں بات کی جائے تو ملک کا سیاسی ماحول ایک مثبت رویہ دکھانے میں ناکام ہوا ہے، شہریوں کا حقِ احتجاج کے خطرے سے دوچار ہوگیا ہے، سیاسی نفرت اب مذہبی نفرت میں تبدیل ہورہی ہے اور یہی خونین تشدد نے تباہ کاریوں کے نظام کا باعث بنا ہے۔

بھارت آخر کہاں جارہا ہے؟
بھارت آخر کہاں جارہا ہے؟
author img

By

Published : Feb 29, 2020, 5:26 PM IST

Updated : Mar 2, 2020, 11:33 PM IST

ڈونالڈ ٹرمپ کے دورے سے متعلق غیر معمولی جوش و خروش اور دہلی کے شمال مشرقی علاقوں میں مذہبی فسادات نے سب کو متوجہ کیا ہے۔ شہریت ایکٹ کے خلاف شاہین باغ میں خواتین اور بچوں کا پر امن احتجاج بھی سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس دوران دہلی کے شمال مشرقی علاقوں جعفر آباد، موج پور، چاند باغ، بھجن پور اور خورجی خاص میں انتہا پسندوں کے ہاتھوں قتل و غارت گری میں 27افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ خبروں میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ پر تشدد جھڑپوں میں 150افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ پولیس کے یہ دعوی کرنا کہ حالات قابو میں ہیں اوردوسری جانب آرمڈ فورسز پر انتہا پسندوں کے حملے ہونا دو متضاد باتیں ہیں۔

دہلی ہائی کورٹ نے ان الزامات کا از خود نوٹس لیا ہے کہ بی جے پی لیڈر کپل مشرا کی نفرت انگیز تقریروں نے ہی پر امن احتجاج کے دوران تشدد کو بھڑکایا ہے۔ تاہم حکومت کا دعویٰ ہے کہ مظاہرین اچانک تشدد پر آمادہ ہوگئے اور موقع پر مطلوبہ تعداد میں پولیس فورس کے اہلکار موجود نہیں تھے۔

جبکہ متاثرین کا کہنا ہے کہ کئی لوگ اس لئے مارے گئے کیونکہ پولیس خاموش رہی اور اس نے صورتحال کو قابو کرنے کے لئے بروقت کارروائی نہیں کی ۔ پولیس نے 'آپ کا تحفظ'، آپ کی ذمہ داری مصداق رویہ اختیار کیا اور اس بیچ فسادیوں نے تلواروں ، بندوقوں اور تیزاب کی بوتلوں کاآزادانہ استعمال کیا۔اس اچانک بپا ہوئے فساد پر حکام نے حرکت میں آنے کے لئے سست روی کا مظاہرہ کیا۔تاہم بین الریاستی سرحدوں کی نگرانی کو سخت کردیا گیا اور گولی چلانے کے احکامات صادر کئے گئے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے صورتحال جلد ہی قابو سے باہر ہوگئی ۔ سماج کے تمام طبقوں کو یہ دیکھ کر دھچکہ لگا ہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف پر امن احتجاج برداشت نہ کرنے والے شدت پسندوں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا

متنازعہ شہریت ترمیمی ایکٹ شمال مشرقی ریاستوں اور باقی ملک کو یکجا کررہا ہے۔شمال مشرق کو یہ خدشہ ہے کہ یہ ایکٹ نئے مہاجروں کو یہاں آنے سے تو روک سکتا ہے لیکن یہاں پہلے سے رہ رہے غیر قانونی مہاجرین کا مسئلہ حل نہیں کرسکتا ہے۔ مرکز نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اِن خدشات کو دور کرے گی۔ اس کے علاوہ حکومت کا یہ فیصلہ کہ وہ تین ممالک سے آنے والے غیر مسلموں کو بھارت کی شہریت دے گی، جنہیں مذکورہ تین ممالک میں مذہبی جبر کا نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن حکومت کے اس قدم پر مسلمان کو تشویش ہے ۔کیونکہ شہریت عطا کرنے والوں میں مسلمانوں کو شامل نہیں رکھا گیا ہے۔

مسلمان اس ایکٹ کی وجہ سے خوف ذدہ ہیں اور وہ اسے غیر آئینی قرار دے رہے ہیں۔سپریم کورٹ میں کئی مقدمے درج کئے گئے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ شہریت بل غیر آئینی ہے۔کئی ریاستوں بشمول بہار نے حال ہی میں ایک قرار داد پاس کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ شہریت ترمیمی ایکٹ کو نافذ نہیں کرے گی ۔جبکہ مرکزی حکومت نے واضح کیا ہے کہ ریاستوں کو مرکز کے فیصلے تسلیم کرنے ہونگے ۔ لیکن ریاستیں اس معاملے میں آئین کی دفعہ 131کے تحت قانونی جنگ لڑنے کے لئے تیار ہیں۔

اس دوران کئی غیر جمہوری واقعات رونما ہورہے ہیں، جیسے جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والے طلبا کا کریک ڈاؤن کیا گیا اور اس قانون کی مخالفت کرنے والوں پر غداری کے مقدمات درج کئے گئے ۔ اب عدالت نے از خود شاہین باغ کے مظاہرین کے ساتھ مشاورت شروع کردی ہے۔ موجودہ سیاسی ماحول میں ایک مثبت رویہ کہیں نظر نہیں آرہا ہے اور اس کی وجہ سے ہر شہری کے احتجاج کے حق کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ سیاسی نفرت مذہبی نفرت میں تبدیل ہوگئی ہے اور اسکے نتیجے میں خونین تشدد برپا۔

مہاتما گاندھی نے کہا ہے کہ ہندو مذہب نے انہیں دوسرے مذاہب کا احترم کرنا سکھایا ہے اور یہی راما راجیہ کا راز بھی ہے۔ آئین ہند میں بھی یہی خوبی موجود ہے اور اس میں شہری حقوق کو ترجیح دی گئی ہے۔ممبئی ہائی کورٹ نے دس دن قبل شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج پر پابندی کو ہٹاتے ہوئے واضح کیا ہے کہ غداری کے مقدمات اُن کے خلاف درج نہیں کئے جانے چاہیے، جو اس بل کی مخالفت کررہے ہیں۔

حال ہی میں سپریم کورٹ کے جسٹس ڈی وائی چاندراچد نے کہا ہے کہ مظاہرین کو قوم دشمن قرار دینا آئین کے اقدار کے منافی ہے۔ایک اور فاضل جج جسٹس دیپک گپتا نے اس میں یہ مزید بتایں جوڑتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو حاصل ہونے والے 51فیصد ووٹوں سے جیتنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ باقی 49فیصد لوگوں کو اس کا ہر حکم ماننا پڑے گا۔

جسٹس دیپک گپتا کے یہ الفاظ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کا مظہر ہے۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ اکثریت میں ہونے کے باوجود حکومت کی جانب سے من مانی کرنا جمہوریت کے لئے سم قاتل ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ امن و قانون تب ہی قائم رہتا ہے جب پر امن احتجاج کی اجازت دی جاتی ہے۔ اگر پولیس خود ہی قانون اور منصف بننے کی کوشش کرے گی، جیسا مظاہرہ اس نے جامعہ ملیہ میں طلبا پر تشدد کرتے ہوئے پیش کیا تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہوگا کہ بھارت میں شہری حقوق اختتام کے قریب ہے۔

ڈونالڈ ٹرمپ کے دورے سے متعلق غیر معمولی جوش و خروش اور دہلی کے شمال مشرقی علاقوں میں مذہبی فسادات نے سب کو متوجہ کیا ہے۔ شہریت ایکٹ کے خلاف شاہین باغ میں خواتین اور بچوں کا پر امن احتجاج بھی سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس دوران دہلی کے شمال مشرقی علاقوں جعفر آباد، موج پور، چاند باغ، بھجن پور اور خورجی خاص میں انتہا پسندوں کے ہاتھوں قتل و غارت گری میں 27افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ خبروں میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ پر تشدد جھڑپوں میں 150افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ پولیس کے یہ دعوی کرنا کہ حالات قابو میں ہیں اوردوسری جانب آرمڈ فورسز پر انتہا پسندوں کے حملے ہونا دو متضاد باتیں ہیں۔

دہلی ہائی کورٹ نے ان الزامات کا از خود نوٹس لیا ہے کہ بی جے پی لیڈر کپل مشرا کی نفرت انگیز تقریروں نے ہی پر امن احتجاج کے دوران تشدد کو بھڑکایا ہے۔ تاہم حکومت کا دعویٰ ہے کہ مظاہرین اچانک تشدد پر آمادہ ہوگئے اور موقع پر مطلوبہ تعداد میں پولیس فورس کے اہلکار موجود نہیں تھے۔

جبکہ متاثرین کا کہنا ہے کہ کئی لوگ اس لئے مارے گئے کیونکہ پولیس خاموش رہی اور اس نے صورتحال کو قابو کرنے کے لئے بروقت کارروائی نہیں کی ۔ پولیس نے 'آپ کا تحفظ'، آپ کی ذمہ داری مصداق رویہ اختیار کیا اور اس بیچ فسادیوں نے تلواروں ، بندوقوں اور تیزاب کی بوتلوں کاآزادانہ استعمال کیا۔اس اچانک بپا ہوئے فساد پر حکام نے حرکت میں آنے کے لئے سست روی کا مظاہرہ کیا۔تاہم بین الریاستی سرحدوں کی نگرانی کو سخت کردیا گیا اور گولی چلانے کے احکامات صادر کئے گئے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے صورتحال جلد ہی قابو سے باہر ہوگئی ۔ سماج کے تمام طبقوں کو یہ دیکھ کر دھچکہ لگا ہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف پر امن احتجاج برداشت نہ کرنے والے شدت پسندوں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا

متنازعہ شہریت ترمیمی ایکٹ شمال مشرقی ریاستوں اور باقی ملک کو یکجا کررہا ہے۔شمال مشرق کو یہ خدشہ ہے کہ یہ ایکٹ نئے مہاجروں کو یہاں آنے سے تو روک سکتا ہے لیکن یہاں پہلے سے رہ رہے غیر قانونی مہاجرین کا مسئلہ حل نہیں کرسکتا ہے۔ مرکز نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اِن خدشات کو دور کرے گی۔ اس کے علاوہ حکومت کا یہ فیصلہ کہ وہ تین ممالک سے آنے والے غیر مسلموں کو بھارت کی شہریت دے گی، جنہیں مذکورہ تین ممالک میں مذہبی جبر کا نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن حکومت کے اس قدم پر مسلمان کو تشویش ہے ۔کیونکہ شہریت عطا کرنے والوں میں مسلمانوں کو شامل نہیں رکھا گیا ہے۔

مسلمان اس ایکٹ کی وجہ سے خوف ذدہ ہیں اور وہ اسے غیر آئینی قرار دے رہے ہیں۔سپریم کورٹ میں کئی مقدمے درج کئے گئے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ شہریت بل غیر آئینی ہے۔کئی ریاستوں بشمول بہار نے حال ہی میں ایک قرار داد پاس کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ شہریت ترمیمی ایکٹ کو نافذ نہیں کرے گی ۔جبکہ مرکزی حکومت نے واضح کیا ہے کہ ریاستوں کو مرکز کے فیصلے تسلیم کرنے ہونگے ۔ لیکن ریاستیں اس معاملے میں آئین کی دفعہ 131کے تحت قانونی جنگ لڑنے کے لئے تیار ہیں۔

اس دوران کئی غیر جمہوری واقعات رونما ہورہے ہیں، جیسے جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والے طلبا کا کریک ڈاؤن کیا گیا اور اس قانون کی مخالفت کرنے والوں پر غداری کے مقدمات درج کئے گئے ۔ اب عدالت نے از خود شاہین باغ کے مظاہرین کے ساتھ مشاورت شروع کردی ہے۔ موجودہ سیاسی ماحول میں ایک مثبت رویہ کہیں نظر نہیں آرہا ہے اور اس کی وجہ سے ہر شہری کے احتجاج کے حق کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ سیاسی نفرت مذہبی نفرت میں تبدیل ہوگئی ہے اور اسکے نتیجے میں خونین تشدد برپا۔

مہاتما گاندھی نے کہا ہے کہ ہندو مذہب نے انہیں دوسرے مذاہب کا احترم کرنا سکھایا ہے اور یہی راما راجیہ کا راز بھی ہے۔ آئین ہند میں بھی یہی خوبی موجود ہے اور اس میں شہری حقوق کو ترجیح دی گئی ہے۔ممبئی ہائی کورٹ نے دس دن قبل شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج پر پابندی کو ہٹاتے ہوئے واضح کیا ہے کہ غداری کے مقدمات اُن کے خلاف درج نہیں کئے جانے چاہیے، جو اس بل کی مخالفت کررہے ہیں۔

حال ہی میں سپریم کورٹ کے جسٹس ڈی وائی چاندراچد نے کہا ہے کہ مظاہرین کو قوم دشمن قرار دینا آئین کے اقدار کے منافی ہے۔ایک اور فاضل جج جسٹس دیپک گپتا نے اس میں یہ مزید بتایں جوڑتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو حاصل ہونے والے 51فیصد ووٹوں سے جیتنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ باقی 49فیصد لوگوں کو اس کا ہر حکم ماننا پڑے گا۔

جسٹس دیپک گپتا کے یہ الفاظ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کا مظہر ہے۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ اکثریت میں ہونے کے باوجود حکومت کی جانب سے من مانی کرنا جمہوریت کے لئے سم قاتل ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ امن و قانون تب ہی قائم رہتا ہے جب پر امن احتجاج کی اجازت دی جاتی ہے۔ اگر پولیس خود ہی قانون اور منصف بننے کی کوشش کرے گی، جیسا مظاہرہ اس نے جامعہ ملیہ میں طلبا پر تشدد کرتے ہوئے پیش کیا تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہوگا کہ بھارت میں شہری حقوق اختتام کے قریب ہے۔

Last Updated : Mar 2, 2020, 11:33 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.