نئی دہلی:سال 2020 میں شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات سے قبل یمنا وہار میں رہنے والی سائمہ خان کی زندگی کافی آسان اور عیش آرام سے گزر رہی تھی لیکن جیسے ہی دہلی میں فسادات ہوئے اور اس کے بعد دہلی پولیس نے گرفتار کرنا شروع کیا تبھی سے سائمہ کی زندگی کے حالات بدلتے چلے گئے صورتحال اتنی خراب ہو گئی کہ انہیں اپنے مستقبل کی فکر ستانے لگی، کالج کی فیس کے لیے انہیں در بدر بھٹکنا پڑا۔
سائمہ نے جیسے تیسے اپنی بی ڈی ایس کی تعلیم مکمل کی اب مسئلہ تھا کلینک کے قیام کا اس کے لیے مالی مدد درکار تھی جو سائمہ کے لئے ایک مشکل ترین ہفد ثابت ہو رہا تھا۔ چونکہ سائمہ اپنے گھر میں سب سے بڑی ہیں اس لیے گھر کے اخراجات کا ذمہ بھی انہیں پر ہے ایسے میں کلینک کے قیام کے لیے انہیں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔
سائمہ نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اپنے کلینک کے قیام کے لیے یو اے پی اے کے الزام میں گرفتار اپنے والد سلیم خان کے لیے درخواست ضمانت داخل کی جس پر عدالت نے ان کی درخواست کو قبول کیا اور انہیں دو ہفتہ کے لیے ضمانت ملی یہ پہلا موقع تھا جب سلیم خان کو گذشتہ ساڑھے 3 سال کے دوران ضمانت ملی ہو انہوں نے اپنی بیٹی کے کلینک کے لیے بھر پور مدد کی جس کے سبب سائمہ اپنا کلینک کھول پائیں۔
یہ بھی پڑھیں:جامعہ نگر میلے میں خواتین کی امڈی بھیڑ
سائمہ کہتی ہیں کہ ان کے والد کو گذشتہ 12 سو روز سے جیل میں محض الزام کی بنیاد پر سزا کاٹ رہے ہیں جبکہ ابھی تک ان پر کوئی بھی الزام ثابت نہیں ہو سکا ہے ایسے میں جو لوگ یو اے پی اے کے تحت گرفتار ہیں ان کے اہل خانہ کو نا صرف ذہنی اذیت سے گزرنا پڑھ رہا ہے بلکہ مالی طور پر بھی بالکل ٹوٹ چکے ہیں اس سب کے باوجود سائمہ اس انتظار میں ہیں کہ ان کے والد کو عدالت سے انصاف ملے گا اور وہ با عزت بری ہوکر اپنے اہل خانہ کے ساتھ سکون سے زندگی گزار سکیں گے۔