نئی دہلی: شمالی ہند کی ریاست تریپورہ میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مسلمانوں پر ہوئے حملے کی چوطرفہ مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن وہیں اس کی آواز جس طرح سے قومی سیاست میں اٹھائی جانی چاہیے وہ نہیں اٹھائی جارہی ہے، حالانکہ اترپردیش اسمبلی اور دہلی میونسپل کارپوریشن سمیت کئی ریاستوں کے انتخابات آئندہ سال ہونے والے ہیں اور سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر حملہ آور ہیں لیکن تریپورہ تشدد کو لے کر زیادہ تر لیڈران خاموش ہیں، شاید انہیں بی جے پی کا خوف ہے یا پھر سخت گیر ذہنیت ،اس معاملے پر جو بھی آوازیں اٹھائی جارہی ہیں وہ مسلم تنظیموں کے ذریعہ ہی اٹھائی جارہی ہیں۔
ای ٹی وی بھارت نے تریپورہ تشدد معاملے پر دہلی میں مجلس اتحاد المسلمین کے صدر کلیم الحفیظ سے بات کی اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ کیا سیاسی پارٹیاں بی جے پی کی دباؤ میں ہیں یا اقلیتوں کے مسائل اٹھانا ہی نہیں چاہتی۔
کلیم الحفیظ نے شمالی ریاست تریپورہ میں گزشتہ دنوں شرپسندوں کے ذریعہ مساجد اور مسلمانوں پر حملے کو افسوسناک قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں جتنے بھی فسادات ہوتے ہیں وہ سخت گیر ہندو تنظیموں کے کارکنان کی وجہ سے ہوتے ہیں اور سبھی سیاسی پارٹیاں اس کو بخوبی جانتی بھی ہیں لیکن اس کے خلاف آواز بلند نہیں کرتی کیوں کہ ہر پارٹی بی جے پی سے خائف ہے اور انہیں ڈر ہے کہ اگر اس نے ان تنظیموں کے خلاف آواز بلند کی تو ان کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔
کلیم الحفیظ نے الزام لگایا کہ ملک بھر میں جتنے بھی فسادات ہوئے ہیں ان میں انتظامیہ بھی شامل رہتی ہے جس کی وجہ سے سخت گیر تنظیموں کے حوصلے بلند ہیں۔
ایم آئی ایم کے دہلی صدر نے کہا کہ مجلس اتحاد المسلمین واحد ایسی پارٹی ہے جو اقلیتوں کی آواز اٹھاتی ہے۔ پارٹی کے صدر اسد الدین اویسی سڑک سے لے کر پارلیمنٹ تک اقلیتوں کی آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں میں سیاسی فقدان ہے یہی وجہ ہے یہی وجہ ہے کہ اقلیتوں کو دبا کچلا جارہا ہے۔
- یہ بھی پڑھیں:پٹرول، ڈیزل کی بڑھتی قیمتیں غریبوں کی جان لے کر رہے گی : ایم آئی ایم
- ’اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے ہجومی تشدد جیسا گندا کھیل کھیلا جارہا ہے‘
انہوں نے کہا کہ جلد ہیہم اس معاملے پر ملک گیر مظاہرہ کریں گے اور صدرجمہوریہ رام ناتھ کو میمورنڈم دے کر مسلمانوں کے امن وامان کا مطالبہ کریں گے۔
واضح رہے کہ شمالی ہند کی ریاست تریپورہ تین اطراف سے پڑوسی ملک بنگلہ دیش سے گھری ہوئی ہے۔ تقریباً 37 لاکھ کی آبادی والی اس ریاست میں مسلمانوں کی تعدادفقط 8.6 فیصد ہے۔ بنگلہ دیش سے بھی کافی تعداد میں ہندو آکر یہاں آباد ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ تریپورہ کے یہ واقعات درگا پوجا کے دوران بنگلہ دیش کے کمیلا ضلع میں پوجا پنڈال میں قرآن شریف رکھے جانے کے بعد وہاں ہوئے تشدد کا ردعمل ہے۔ جس طرح 2002 میں گجرات میں ’ردعمل‘ کی مثال پیش کرتے ہوئے شرپسندوں نے مسلمانوں کی منظم نسل کشی کا سلسلہ شروع کردیا تھا، وہی صورتحال یہاں بھی پیدا ہونے کا خدشہ ہے کیوں کہ بنگلہ دیش واقعہ کے بعد سے ہی تریپورہ کے مختلف علاقوں میں آباد مسلمانوں کو ہندو شدت پسند تنظیموں نے نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔