نئی دہلی: مسلمانوں کے خلاف ملک کے اندر جو حالات ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کبھی بھی وقت ملک میں قتل عام ہوسکتا ہے۔ اس کی مثال مدھیہ پردیش کے کھرگون اور دہلی کی جہانگیر پوری ہے۔ جہاں سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود تمام انتظامی امور کو بالائے طاق رکھ کر پولیس اور انتظامیہ نے مسلمانوں کی بستیوں کو اجاڑنے کی کوشش کی، ان خیالات کا اظہار کل ہند مجلس اتحاد المسلمین دہلی کے صدر کلیم الحفیظ نے کیا۔
ابوالفضل میں واقع ہوٹل ریور ویو میں ایم آئی ایم کی جانب سے صحافیوں اور میڈیا ہاؤس کے کارکنان کے لیے منعقد افطار پارٹی کے بعد صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کلیم الحفیظ نے کہا کہ ملک میں کبھی بھی مسلمانوں کا قتل عام ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فساد تو کانگریس کے دور میں بھی ہوتے تھے لیکن اس وقت حکومت اور انتظامیہ کھل کر سامنے نہیں آتی تھی لیکن موجودہ حکومت میں جس طرح سے مسلمانوں کو پریشان کیا جارہا ہے اور ہندو تنظیمیں یاترائیں نکال کر مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات اور پھر پتھراؤ اور اس کے بعد مسلمانوں کے گھر کو بلڈوزر کے ذریعہ منہدم کیا جانا اور اس پورے کھیل میں حکومت اور پولیس کا شامل ہونا، اس سے صاف ظاہر ہے کہ ملک میں جلد ہی نسل کشی ہوسکتی ہے۔
کلیم الحفیظ نے کہا کہ دنیا کے نسل کشی کے ایکسپرٹ Gregory Stanton نے جنوری ماہ میں وارننگ دی تھی کہ ہندوستان میں کبھی بھی نسل کشی ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایکسپرٹ نے نسل کشی کے جو 10 بنیادی وجوہات بتائے ہیں ا ن میں سے تقریباً 9 اس حکومت میں مکمل ہوچکے ہیں اور اس کی مثال مدھیہ پردیش اور دہلی کی جہانگیر پوری ہے۔
مزید پڑھیں:
- Owaisi over Jahangirpuri Demolition: اسد الدین اویسی جہانگیر پوری پہنچے
- Protest in Kolkata: مسلم مخالف کارروائیوں کے خلاف کولکاتا میں احتجاج
کلیم الحفیظ نے کہا کہ 2020 میں دہلی فسادات کے دوران جس طرح سے پولیس نے پتھربازی کی تھی اور سرکاریں ملوث تھی اسی طرح سے جہانگیر پوری میں بھی پولیس نے پتھر بازی کی اور پھر حکومت کے اشارے پر مسلمانوں کے خلاف کھلم کھلا کارروائی کو انجام دی گئی ۔ملک کی عدالتیں، پولیس، انتظامیہ سب خاموش رہی۔ اسی طرح سے ملک میں نسل کشی ہوگی تو تمام ادارے خاموش رہیں گے اور مسلمانوں کا قتل عام ہوتا رہے گا۔ انہوں نے مسلمانوں سے ہوشیار رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ آپسی بھائی چارے کو برقرار رکھیں، اخلاق سے پیش آئیں، رمضان المبارک کا مہینہ چل رہا ہے افطاری میں غیر مسلمانوں کو بھی مدعو کریں اور روزہ و رمضان کی حقیقت سے آشنا کرائیں۔