نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے حال ہی میں نچلی عدالت کے اس حکم کو برقرار رکھا جس میں شادی کے ایک ماہ بعد پیدا ہونے والے بچے کی دیکھ بھال سے باپ نے انکار کر دیا تھا۔ ہائی کورٹ نے ڈی این اے رپورٹ کا نوٹس لیا، رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ درخواست گزار کا شوہر اس کے بچے کا حیاتیاتی باپ نہیں ہے۔ اس پر جسٹس سورن کانتا شرما نے کہا کہ ریکارڈ پر موجود ڈی این اے رپورٹ کے مطابق مدعا علیہ (شوہر) کو بچے کی کفالت کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر بچہ، درخواست گزار اور مدعا علیہ کے درمیان شادی کے دوران پیدا ہوا ہو تب بھی شوہر کو بچے کی کفالت ادا کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
بنچ نے کہا کہ قانون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حیاتیاتی باپ بچے کی دیکھ بھال کا ذمہ دار ہے۔ بنچ نے مدعا علیہ کے وکیل کی اس دلیل کا بھی نوٹس لیا کہ وہ شادی کے وقت نابالغ تھا ۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر شوہر نابالغ تھا تو نکاح خود ہی کالعدم ہو جاتا ہے۔ عدالت میں اپنے دلائل میں مدعا علیہ کے وکیل نے کہا کہ درخواست گزار کی اہلیہ نے عدالت سے اپنی کمائی کی حقیقت چھپائی۔ اس پر ہائی کورٹ نے کہا کہ طے شدہ قانون کے مطابق عدالت کی رائے ہے کہ عبوری دیکھ بھال دینے کے مرحلے پر عدالت کے سامنے رکھے گئے حقائق کے ساتھ ساتھ آمدنی پر اور اخراجات کے عوامل پر 'سب سے پہلے سائٹ آبزرویشن' کی جانی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں:بچی کا والد کون ؟
دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ چاہے درخواست گزار باورچی یا گھریلو ملازم کے طور پر کام کر رہا ہو۔ فی الحال ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ وہ کچھ کما رہی ہے۔ دونوں افراد کے درمیان شادی کی حقیقت میں بھی اختلاف نہیں ہے لیکن اس شادی کی قانونی حیثیت متنازع ہے جس کا فیصلہ متعلقہ عدالت کے سامنے ہے۔ اس معاملے پر عدالت کا مؤقف ہے کہ ٹرائل کورٹ نے دیکھ بھال سے انکار کرکے یقیناً غلطی کی ہے۔ خاص طور پر جب درخواست گزار کے ریکارڈ سے یہ واضح ہو کہ وہ کام نہیں کر رہی ہے۔