لداخ میں لائن آف ایکچول کنٹرول (ایل اے سی) کو لے کر بھارت اور چین کے مابین تنازعہ مئی 2020 سے بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ سرحد پر حالات پرسکون ہونے کے باوجود بھی کشیدگی کم نہیں ہوئی ہے۔ اس کے پیش نظر دونوں فریقوں کے درمیان تنازع کو حل کرنے کے لیے بھارت اور چین کی فوجیں ایک بار پھر سے آج کور کمانڈر سطح کے مذاکرات کریں گے۔
تازہ ترین پیش رفت میں، بھارتی فوج کے ذرائع نے بتایا ہے کہ چینی حصے کے مالدو میں ہفتے کی صبح تقریبا 10.30 بجے دونوں فریقوں کے درمیان مذاکرات شروع ہوں گے۔ توقع ہے کہ بھارت اور چین ہاٹ اسپرنگس اور گوگرا ہائٹس کے علاقوں میں فوجی دستبرداری کے معاملے پر بات ہوگی۔
اس سے قبل وزارت خارجہ نے اشارہ کیا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات پر اتفاق ہوگیا ہے، اور مذاکرات جلد منعقد ہوں گے۔ مشرقی لداخ میں چین کے ساتھ ایل اے سی تنازعے کے بارے میں، وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے کہا تھا کہ دستبرداری اور ڈی ایسکلیشن کے حوالے سے اپنے موقف کا اعادہ کر رہے ہیں۔ میرے پاس ابھی کوئی خاص اپ ڈیٹ نہیں ہے۔
ترجمان ارندم باگچی نے کہا کہ 'بھارت اور چین کے درمیان کمانڈر سطح کے مذاکرات کے اگلے دور کے بارے میں معلومات جلد شیئر کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ دونوں رہنماؤں - وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور وزیر خارجہ وانگ یی نے جلد از جلد مذاکرات کرنے پر اتفاق کیا ہے'۔
قابل ذکر ہے کہ لداخ کے گلوان گھاٹی میں مئی 2020 میں بھارت اور چین کے درمیان گزشتہ چھ دہائیوں میں سب سے بڑا فوجی تصادم ہوا تھا۔ جس میں دونوں فوجوں کے درمیان ہوئے تصادم میں ایک کرنل سمیت بھارتی فوج کے 20 سپاہی شہید ہوئے تھے۔ 1914 سے 2020 تک نئی دہلی اور بیجنگ کے درمیان بھارت چین سرحد پر عدم اعتماد اور تنازعات کی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔
بھارتی فوج کی شمالی کمان کے سابق سربراہ اور 2016 میں اری دہشت گردانہ حملے کے بعد سرجیکل اسٹرائیکس کی قیادت کرنے والے لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہوڈا کے مطابق، وادی گلوان لائن آف ایکچول کنٹرول بھارت کی ایک اہم سڑک سے تقریبا چھ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ جو دنیا کی سب سے اونچی ہوائی پٹی دولت بیگ اولڈی (DBO) جاتی ہے۔ یہ وہ واحد سڑک ہے جو پورے 12 ماہ کھلی رہتی ہے، اس سڑک سے ہماری ضروریات کا سامان ہمارے ڈی بی او اور اس کے آس پاس میں تعینات فوجیوں کو پہنچانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ یہ سڑک ڈاربک سے شروع ہوتی ہے اور ڈی بی او تک 255 کلومیٹر تک جاتی ہے۔
اس سڑک کی تعمیر سال 2000 میں شروع ہوئی تھی، لیکن دریائے شیوک پر پل نہیں ہونے کی وجہ سے فوج کے لیے اس کی رسائی میں رکاوٹ تھی۔ اس کے بعد ایک مستقل پل 2019 میں بنایا گیا اور اس کا افتتاح وزیر دفاع نے کیا۔ یہ سڑک اسٹریٹجک نقطہ نظر سے بہت اہم ہے، کیونکہ اس کی مدد سے اب لداخ کے شمالی علاقوں میں فوج اور فوجی سامان تیزی سے پہنچایا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیں:
کمانڈر مذاکرات: فوجیوں کو پیچھے ہٹانے پراتفاق نہیں ہوسکا
اگر چینی وادی گلوان کے ذریعے کنٹرول لائن میں داخل ہوتے ہیں تو وہ اس سڑک کو تباہ کرنے کی وارننگ بھی دے سکتے ہیں۔ بھارتی فوجیوں نے ہمارے علاقے میں دراندازی کی چینی کوششوں کی بھرپور مزاحمت کی ہے، اور اس کی وجہ سے 15 جون کو تنازعہ ہوا تھا، جس میں 20 فوجی شہید ہوئے تھے۔
ماضی میں بھی کئی دراندازی کی وارداتیں ہوچکی ہیں، جن میں سے کچھ نے 2013 میں دیپسانگ، 2014 میں چمار اور 2017 میں ڈوکلام جیسے کشیدگی کو بڑھایا ہے۔ تاہم ، یہ مقامی واقعات تھے ، جو دونوں اطراف میں بغیر کسی تشدد کے پرامن طریقے سے حل ہوئے۔