عالمی وبا کورونا وائرس کے پھیلنے کی رفتار اتنی تیز تھی کہ 2020کے پہلے ہی مہینے کی 30 تاریخ کو عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کو عالمی سطح پر پبلک ہیلتھ ایمرجنسی کا اعلان کرنا پڑا، اور اسی کے ساتھ 30 جنوری کو ہی بھارت میں بھی کورونا کے پہلے کیس کی تصدیق ہوئی۔اس کے تقریباً 1 ماہ اور 22دن کے بعد حکومت حرکت میں آئی اور 22مارچ کو اچانک جنتا کرفیو کا اعلان کر دیا۔
اسی دوران تبلیغی جماعت کے نظام الدین مرکز کا معاملہ بھی سنسنی خیز طریقہ سے سامنے آیا
13مارچ کو مرکزی وزارت صحت نے یہ اعلان کیا کہ بھارت میں کورونا کی وجہ سے کوئی ایمرجنسی بحران نہیں ہے۔ ملک کا نظام معمول کے مطابق چلتا رہا۔
مرکز نظام الدین میں تبلیغی جماعت کے طے شدہ پروگراموں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ مرکز میں 8-10 مارچ کو عالمی مشورہ اور 15سے 22مارچ تک ریاستی جوڑ کا اہتمام کیا گیا لیکن 22مارچ کو اچانک جنتا کرفیو کے اعلان کے بعد تمام پروگرامز کو منسوخ کر دیا گیا۔
جنتا کرفیو کے اگلے ہی دن 23مارچ کو تبلیغی جماعت کی جانب سے نظام الدین کے ایس ایچ او کو ایک مکتوب تحریر کر کے مرکز میں پھنسے لوگوں کو ان کے وطن پہنچانے کا نظم کرنے کی درخواست کی گئی۔
پہلے خط کا کوئی جواب نہیں ملنے پر 25مارچ کو دوسرا خط لکھا گیا۔جس کے بعد یہ معاملہ حکومت کی نوٹس میں آیا اور
سیاست سے کوسوں دور تبلیغی جماعت سیاست کے خطرناک بھنور میں پھنس گئی۔ 30مارچ تبلیغی جماعت کے خلاف میڈیا میں آواز بلند ہونے لگی۔ہر طرف شور مچا کہ ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے لیے تبلیغی جماعت کے ارکان ہی ذمہ دار ہیں۔
میڈیا میں دن بھر تبلیغی جماعت اور نظام الدین مرکز کے خلاف آواز اٹھنے کے بعد پورے ملک میں مسلمانوں بالخصوص تبلیغی جماعت سے منسلک افراد کے خلاف نفرت کی آگ بھڑک اٹھی۔
ملک میں کورونا کے پھیلاؤ کے لیے ہر سطح پر مسلمانوں کو ذمہ ٹھہرانے کی کوشش کی گئی۔ مسجدوں اور مرکزوں میں پھنسے ہوئے جماعتیوں کو چھپا ہوا اور بقیہ لوگوں کو پھنسا ہوا قرار دیا جانے لگا۔
ملک بھر میں تبلیغیوں کی ٹریسنگ اور دھرپکڑ ایسی شروع ہوئی جیسے ملک کے کسی بڑے ملزم کے خلاف آپریشن جاری ہو۔حکومت اور پولیس انتظامیہ کی جانب سے جماعتیوں کی گرفتاری اور عدالتی کارروائی شروع کی گئی جس میں متعدد میڈیا ادارے حکومت کی تائید میں سرگرم رہے۔
اس نفرت انگیز مہم کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کے لیے دائرہ تنگ ہو گیا۔ کہیں مسلم سبزی فروشوں اور ٹھیلے والوں کا بائیکاٹ کیا گیا، ان کی پٹائی کی گئی، کہیں داڑھی ٹوپی والوں کے ساتھ بہیمانہ تشدد کیا گیا۔ کئی مقامات پر پولیس نے مساجد میں گھس کر نمازیوں پر لاٹھی ڈنڈے برسائے تو کہیں ہسپتالوں، ہوٹلوں اور دکانوں میں مسلمانوں کے داخلہ پر پابندی عائد کر دی گئی
اس دوران ایک ایسا وقت آیا جب کورونا کے یہی مبینہ مجرم مسیحا بن کر سامنے آئے اور ہزاروں کورونا سے متاثر مریضوں کو اپنا پلازما ڈونیٹ کر کے ان کی صحب یابی میں اہم کردار ادا کیا۔ مرکز نظام الدین کے سربراہ مولانا سعد نے خود آڈیو جاری کر کے زیادہ سے زیادہ پلازمہ عطیہ کرنے کی اپیل کی۔
آخر کار 22 جوالائی کو جھارکھنڈ ہائی کورٹ نے تبلیغی جماعت کے 17غیر ملکی ارکان کو رہا کیا اور واضح طور پر کہا کہ یہ لوگ چھپے ہوئے نہیں بلکہ پھنسے ہوئے تھے۔ اس کے بعد 22اگست کو بامبے ہائیکورٹ نے تاریخ ساز فیصلہ سناتے ہوئے تبلیغی جماعت کے 26غیر ملکی ارکان کے خلاف ایف آئی آر کو منسوخ کردیا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ تبلیغی جماعت کے ان ارکان کو بلی کا بکرا بنایا گیا۔ وہیں، 18نومبر کو سپریم کورٹ نے بھی تبلیغی جماعت سے متعلق فرضی خبروں کے معاملے میں میڈیا اداروں کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر مرکزی حکومت کی شدید سرزنش کی۔
12دسمبر کو دہلی کی ساکیت کورٹ نے بھی 36غیر ملکیوں کو تمام الزامات سے بری کر دیا۔ ساکیت کورٹ نے اپنے تبصرے میں کہا کہ ملک میں کورونا کو پھیلانے کے لیے ان لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی سازش کی گئی تھی۔اسی طرح ملک کی دیگر عدالتوں سے بھی تبلیغی جماعت کو راحت ملی اور حکومت کو سرزنش کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ بھی پڑھیں: 'شمس الرحمٰن فاروقی اردو دنیا کا قابل فخر کردار'
2020 کا سال تبلیغی مشن کیلئے بے حد صبر آزما ثابت ہوا لیکن سال کے اختتام پر جس طرح عدالتوں نے اس جماعت کے ارکان کی بے گناہی پر مہر تصدیق ثبت کی اس سے یہ امید پیدا ہوگئی کہ گھٹاٹوپ اندھیروں میں بحرحال کہیں امید کی کرن بھی موجود ہوتی ہے۔