حیدرآباد: عدالت نے دانشمندانہ طور اس مشاہدے کو باور کیا کہ میڈیا کی آزادی پر عائد کی جانے والی کوئی بھی پابندی ، رائے عامہ کو ایک ہی سانچے میں ڈھالنے کا باعث بن سکتی ہے ، جو جمہوری اصولوں کی بقا کے لیے ایک زبردست خطرہ ہے۔ اس فیصلے میں قومی سلامتی کی آڑ میں شہریوں کے حقوق کو پامال کرنے کے حکومتی رجحانات پر بھی واضح طور پر تنقید کی گئی، خاص طور پر جب ایسی کارروائیوں میں کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہ ہو۔ اس پس منظر میں، مودی حکومت کے ذریعہ حال ہی میں نافذ کردہ پریس اینڈ پیریڈیکل رجسٹریشن ایکٹ نے ایک بار پھر عدالتی اصولوں کے تئیں حکمراں جماعت کی نفرت کو ظاہر کیا۔ بظاہر یہ تاویل پیش کی گئی کہ سابقہ ایکٹ، جس کی تاریخ 155 سال پر محیط ہے، کے تحت معمولی خلاف ورزیوں کے لیے بھی غیر متناسب جرمانے عائد کئے جاسکتے ہیں، جس سے آئینی اصول مجروح ہوتے ہیں، جس کے جواب میں مودی حکومت نے ایک ایسے نئے قانون کے نفاذ میں عجلت لائی جس کا مقصد بظاہر کارپوریٹ مینجمنٹ کو فروغ دینا اور پریس کی آزادی کو برقرار رکھنا ہے۔
تاہم، بظاہر خیر خواہی پر مبنی یہ قانون سازی ایک درپردہ ایجنڈے کے ساتھ منسلک ہے کیونکہ اسکی رو سے پریس رجسٹرار کے اختیارات ، اخبارات اور رسائل کی محض رجسٹریشن پر ہی ختم نہیں ہوتے بلکہ اس سے کہیں زیادہ آگے بڑھ جاتے ہیں۔ خاص طور پر تشویش کی بات یہ ہے کہ قانون سازی کی تیاری میں استعمال کی جانے والی زبان وسیع اور مبہم ہے جس میں پریس رجسٹرار کو سی بی آئی اور ای ڈی جیسے سرکاری اداروں کو اختیار منتقل کرنے کا مجاز بنایا گیا ہے۔ یہ آزادی صحافت کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ مزید برآں، ایکٹ کی شقوں کے تحت مرکزی حکومت کو خبروں کی اشاعت کے لیے معیار قائم کرنے کی اجازت دی جارہی ہے جو کہ آئینی روح کی صریح خلاف ورزی ہے۔ موجودہ ماحول، جہاں حکومتی اقدامات پر تنقید کرنے والے صحافیوں پر 'غداری' کی تلوار خطرناک حد تک لٹک رہی ہے، آزادی اظہار کے بہتر دفاع کی ضرورت ہے۔پریس مینجمنٹ کی آڑ میں معلومات حاصل کرنے کے لیے جارحانہ اختیارات کی منظوری، جیسا کہ ایکٹ کے سیکشن 19 میں کہا گیا ہے، میڈیا کی آزادی پر ایک مکروہ حملہ ہے جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
تقریباً ساڑھے تین ماہ قبل، مرکزی اطلاعات و نشریات کے محکمے نے سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کیا، جس میں نہ صرف صحافتی آزادی کے تحفظ بلکہ سیلف ریگولیشن کو فروغ دینے کے عزم کی تصدیق کی گئی۔ اس نے دلیل دی کہ یہ نقطہ نظر میڈیا اداروں اور صحافیوں کو معاشرے میں زیادہ ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ اہم ترین وزارتیں ایک بنیادی سچائی غافل ہیں جو یہ ہے کہ آزاد ہندوستان میں پریس کی آزادی کسی بھی حکمران کے اختیار سے باہر ہے۔ ٓآئین کی دفعہ 19 ، جو شہریوں کو آزادی اظہار کی ضمانت دیتی ہے، کا مغز یہ ہے کہ صحافتی آزادی جمہوری اقدار کا ایک پائیدار ستون ہے۔ افسوس کہ موجودہ سیاسی منظر نامہ مہاتما گاندھی کے مشورے سے ہٹتا دکھائی دیتا ہے، جنہوں نے ممکنہ غلط تشریحات کے باوجود مضبوط پریس کی آزادی کی وکالت کی۔
یہ بھی پڑھیں: کشمیری صحافی فہد شاہ کو ملی ضمانت
ستم بالائے ستم، جو پارٹی ، یو پی اے کے دور اقتدار میں میڈیا کے ضوابط کو سخت کرنے کی مخالفت کررہی تھی، اس نے اب یو ٹرن لیکر خود ہی سخت ترین قوانین بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہےجسکا مقصد بطاہر یہی لگتا ہے کہ صحافیوں کو حکمران طبقے کے نوکروں میں تبدیل کیا جائے تاکہ وہ انکے اشاروں پر ناچیں۔ یہی وجہ ہے کہ 180 ممالک پر مشتمل آزادی صحافت کی عالمی درجہ بندی میں ہندوستان کا نمبر بدستور گرتے ہوئے 161 ویں پائیدان پر آگیا ہے۔ حال ہی میں، سپریم کورٹ نے تفتیشی ایجنسیوں کو دیے گئے غیر معمولی اختیارات کی سختی سے مذمت کی اور صحافیوں کے پیشہ ورانہ سامان کو اندھا دھندطریقے سے ضبط کرنے کے عمل سے منع کیا۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ پریس دفاتر پر سرکاری چھاپوں کا بڑھتا ہوا رجحان جسے بظاہر نئے ایکٹ کی آڑ میں کیا جاتا ہے، پریشان کن سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اخبارات عوام کی آزاد آواز کی آئینی علامت سمجھے جاتے ہیں جو سماج کے چوکس پہریداروں کے طور پر کام کرتے ہیں اور عوام کو حکومت اور اسکے نطام میں پیداا شدہ خرابیوں سے آگاہ کرتے ہیں۔باشعور اور سنجیدہ شہریوں کیلئے یہ لازم ہے کہ وہ حکومت کی ان کوششوں کے بارے میں چوکنا رہیں جن کا مقصد سخت تنقید کو روکنا ہو یا صحافتی آزادی کے مقدس دائرے کو مجروح کرنے کا مقصد ہو۔