ETV Bharat / state

aimplb reaction on survey of gyanvapi گیان واپی مسجد کے سروے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ افسوسناک، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

author img

By

Published : Aug 5, 2023, 7:36 PM IST

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک پریس بیان میں کہا ہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ یکطرفہ اور جانبدارانہ تھا اور توقع تھی کہ عبادت گاہوں سے متعلق قانون کی روشنی میں عدالت عظمیٰ اس پر روک لگادے گی تاہم ایسا نہیں ہوا۔

گیان واپی مسجد کے سروے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ افسوسناک
گیان واپی مسجد کے سروے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ افسوسناک

نئی دہلی: گیان واپی مسجد معاملہ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ حیرت انگیز اور افسوسناک ہے۔ توقع کی جارہی تھی کہ چیف جسٹس، جسٹس چندر چوڑ والی بنچ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ پر عبادت گاہوں سے متعلق قانون کی روشنی میں روک لگا دے گی تاہم عدالت نے اس کے برعکس فیصلہ دیا جو انتہائی افسوسناک اور مایوس کن ہے، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلمانوں کو اس سے سخت مایوسی ہوئی ہے۔ اندیشہ ہے کہ اب عبادت گاہوں سے متعلق قانون کی خلاف ورزیوں کا دروازہ کھل جائے گا۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک پریس بیان میں کہا ہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ یکطرفہ اور جانبدارانہ تھا اور توقع تھی کہ عبادت گاہوں سے متعلق قانون کی روشنی میں عدالت عظمیٰ اس پر روک لگادے گی تاہم ایسا نہیں ہوا۔

عبادت گاہوں سے متعلق قانون جس وقت لایا گیا تھا اس وقت پورے ملک کو یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ بابری مسجد تنازعہ کے بعد اب ہر نئے تنازعہ کا راستہ روکنے کے لئے یہ قانون لایا جارہا ہے۔ قانون میں بھی واضح طور پر کہا گیا تھا کہ 15 اگست 1947 کو جس عبادت گاہ کی جو حیثیت ہے وہ علی حالہ باقی رہے گی تاکہ ملک میں بھائی چارہ و امن و سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو تاہم اگر اسی طرح کے فیصلہ آتے رہیں گے تو اندیشہ ہے کہ یہ قانون پوری طرح سے بے معنی ہوکر رہ جائے گا اور پورا ملک نئے نئے تنازعات اورجھگڑوں کی آماجگاہ بن جائے گا۔

انہوں نے آگے کہا کہ بابری مسجد کے مقام پر بھی محکمہ آثار قدیمہ کے ذریعے جو سروے کیا گیا تھا اس میں بھی مندر کے ستونوں کے نشان نکال لئے گئے تھے تاہم سپریم کورٹ نے اپنے حتمی فیصلہ میں یہ واضح کردیا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی اور اسکا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ جو چند معمولی چیزیں ملی بھی وہ بھی بابری مسجد سے چار سو سال قبل کی ہیں.

بورڈ کے ترجمان نے آگے کہا کہ اس سے قبل جس ایک سروے میں حوض کے فوارہ کو شیو لنگ بتاکر وہاں پہرہ بٹھادیا گیا اور وضو پر پابندی لگادی گئی تھی اندیشہ ہے کہ نام نہاد سائنٹفک سروے کے ذریعہ مسجد کے نیچے کوئی مندر یا اس کے آثار نکال لئے جائیں گے اور پھر نماز پر بھی پابندی عائد کردی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: گیان واپی مسجد کا اے ایس آئی سروے دوسرے دن بھی جاری

نچلی عدالت بار بار یہ کہہ رہی ہے کہ مقصد مسجد کے ڈھانچہ کو نقصان پہنچانا نہیں ہے بلکہ یہ جاننا ہے کہ مسجد کے نیچے کیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کی ضرورت کیا ہے؟ بورڈ کو اندیشہ ہے کہ یہ فیصلہ نت نئے تنازعوں کے لئے راستہ ہموار کرے گا، حالانکہ اسی کو روکنے کے لئے پارلیمنٹ نے یہ قانون وضع کیا تھا۔ کیا عدالت عظمی قانون کی اس بے حرمتی کو روک پائے گی۔

نئی دہلی: گیان واپی مسجد معاملہ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ حیرت انگیز اور افسوسناک ہے۔ توقع کی جارہی تھی کہ چیف جسٹس، جسٹس چندر چوڑ والی بنچ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ پر عبادت گاہوں سے متعلق قانون کی روشنی میں روک لگا دے گی تاہم عدالت نے اس کے برعکس فیصلہ دیا جو انتہائی افسوسناک اور مایوس کن ہے، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلمانوں کو اس سے سخت مایوسی ہوئی ہے۔ اندیشہ ہے کہ اب عبادت گاہوں سے متعلق قانون کی خلاف ورزیوں کا دروازہ کھل جائے گا۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک پریس بیان میں کہا ہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ یکطرفہ اور جانبدارانہ تھا اور توقع تھی کہ عبادت گاہوں سے متعلق قانون کی روشنی میں عدالت عظمیٰ اس پر روک لگادے گی تاہم ایسا نہیں ہوا۔

عبادت گاہوں سے متعلق قانون جس وقت لایا گیا تھا اس وقت پورے ملک کو یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ بابری مسجد تنازعہ کے بعد اب ہر نئے تنازعہ کا راستہ روکنے کے لئے یہ قانون لایا جارہا ہے۔ قانون میں بھی واضح طور پر کہا گیا تھا کہ 15 اگست 1947 کو جس عبادت گاہ کی جو حیثیت ہے وہ علی حالہ باقی رہے گی تاکہ ملک میں بھائی چارہ و امن و سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو تاہم اگر اسی طرح کے فیصلہ آتے رہیں گے تو اندیشہ ہے کہ یہ قانون پوری طرح سے بے معنی ہوکر رہ جائے گا اور پورا ملک نئے نئے تنازعات اورجھگڑوں کی آماجگاہ بن جائے گا۔

انہوں نے آگے کہا کہ بابری مسجد کے مقام پر بھی محکمہ آثار قدیمہ کے ذریعے جو سروے کیا گیا تھا اس میں بھی مندر کے ستونوں کے نشان نکال لئے گئے تھے تاہم سپریم کورٹ نے اپنے حتمی فیصلہ میں یہ واضح کردیا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی اور اسکا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ جو چند معمولی چیزیں ملی بھی وہ بھی بابری مسجد سے چار سو سال قبل کی ہیں.

بورڈ کے ترجمان نے آگے کہا کہ اس سے قبل جس ایک سروے میں حوض کے فوارہ کو شیو لنگ بتاکر وہاں پہرہ بٹھادیا گیا اور وضو پر پابندی لگادی گئی تھی اندیشہ ہے کہ نام نہاد سائنٹفک سروے کے ذریعہ مسجد کے نیچے کوئی مندر یا اس کے آثار نکال لئے جائیں گے اور پھر نماز پر بھی پابندی عائد کردی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: گیان واپی مسجد کا اے ایس آئی سروے دوسرے دن بھی جاری

نچلی عدالت بار بار یہ کہہ رہی ہے کہ مقصد مسجد کے ڈھانچہ کو نقصان پہنچانا نہیں ہے بلکہ یہ جاننا ہے کہ مسجد کے نیچے کیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کی ضرورت کیا ہے؟ بورڈ کو اندیشہ ہے کہ یہ فیصلہ نت نئے تنازعوں کے لئے راستہ ہموار کرے گا، حالانکہ اسی کو روکنے کے لئے پارلیمنٹ نے یہ قانون وضع کیا تھا۔ کیا عدالت عظمی قانون کی اس بے حرمتی کو روک پائے گی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.