اترپردیش میں گذشتہ دنوں مظاہروں کے دوران پیش آئے پُرتشدد واقعات کے بعد یوگی حکومت نے ملزمین کی جائیدادوں پر بلڈوزر چلا دیا ہے۔ بلڈوزر کی کارروائی پر روک لگانے کے لیے جمیعت علما نے پیر کے روز سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی تھی جس پر سپریم کورٹ 16 جون بروز جمعرات سماعت کرے گا۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ دہلی کے جہانگیر پوری واقعے کے بعد مسجد کے باہری دروازے پر چلائے گئے بلڈوزر معاملے پر بھی سماعت کرے گا۔ ان دونوں عرضیوں پر جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وکرم ناتھ کی بینچ سماعت کرے گی۔ Supreme Court hearing against bulldozer operation
جمعیت کے مطابق اس تشدد میں مسلمانوں کی یک طرفہ گرفتاریاں ہوئیں۔ وہیں دوسری جانب گذشتہ تین دنوں سے کانپور، الہ آباد اور سہارنپور میں انتظامیہ نے مسلمانوں کی کئی املاک کو مسمار کیا جس میں اب تک مسلمانوں کے متعدد مکانات کو بلڈوزر کی مدد سے زمین دوز کردیا گیا ہے۔ داخل پٹیشن میں جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی مدعی بنے ہیں۔ اس ضمن میں آج جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ آف انڈیا میں دو عبوری درخواستیں (انٹریم اپلیکشن ) داخل کی ہیں۔ یہ درخواستیں جہانگیر پوری، کھرگون معاملے میں سپریم کورٹ میں زیر سماعت پٹیشن میں داخل کی گئی ہیں، اس پٹیشن پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے 21؍ اپریل 2022 کو ریاست اترپردیش سمیت مدھیہ پردیش، اتراکھنڈ ، گجرات اور دہلی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے بلڈوزر کے ذریعہ کی جانے والی انہدامی کارروائی پر جواب طلب کیا تھا۔
جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل عبوری درخواست میں یہ تحریر کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ماضی میں انہدامی کارروائی پر نوٹس جاری کیے جانے کے بعد بھی غیر قانونی طریقے سے انہدامی کارروائی کی جارہی ہے جس پر روک لگانا ضروری ہے۔ نیز ان افسران کے خلاف کارروائی بھی کی جائے جنہوں نے قانون کی دھجیاں اڑاکر مسلمانوں کے املاک کو نقصان پہنچایا ہے۔ Supreme Court hearing against bulldozer operation
عبوری عرضداشت میں تحریر کیا گیا ہے کہ قانون کے مطابق کسی بھی طرح کی انہدامی کارروائی شروع کرنے سے قبل پندرہ دن کی نوٹس دینا ضروری ہے۔ نیز اتر پردیش بلڈنگ ریگولیشن ایکٹ1958 کی دفعہ 10 کے مطابق انہدامی کارروائی سے قبل فریق کو اپنی صفائی پیش کرنے کا مناسب موقع دینا چاہیے، اسی طرح اتر پردیش اربن پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ 1973 کی دفعہ 27 کے تحت کسی بھی طرح کی انہدامی کارروائی سے قبل 15 دن کی نوٹس دینا ضروری ہے، ساتھ ساتھ اتھارٹی کے فیصلہ کے خلاف اپیل کا بھی حق ہے اس کے باوجود بلڈوز چلایا جارہا ہے۔
مزید پڑھیں:
عرضداشت میں مزید تحریر کیا گیا ہے کہ اترپردیش حکومت نے قوانین کو بالائے طاق رکھ کر غیر قانونی طور پر انہدامی کارروائی شروع کردی ہے جس سے مسلمانوں میں خوف وہراس کا ماحول ہے، لہٰذا عدالت نے اتر پردیش حکومت کو حکم جاری کرے کہ انہدامی کارروائی کو فوراً روکے اور اگر انہیں غیر قانونی عمارتو ں کو منہدم ہی کرنا ہے تو قانون کے مطابق کرے اور قانون کا تقاضہ ہیکہ پہلے نوٹس دی جائے اور اس کے بعد اپنی بات رکھنے کا موقع دیا جائے۔
عرضداشت میں مزید یہ بھی تحریر کیا گیا ہیکہ کئی جگہوں پر ایک رات قبل نوٹس چسپاں کرکے دوسرے دن سخت پولس بندوبست میں انہدامی کارروائی انجام دی گئی جس کی وجہ سے متاثرین عدالت سے رجوع بھی نہیں ہوسکے، نیز ڈر و خوف کے اس ماحول میں متاثرین براہ راست عدالت سے رجوع ہونے سے قاصر ہیں۔فی الحال سپریم کورٹ میں گرمیوں کی تعطیلات چل رہے ہیں، جمعیۃ کے وکلاء صارم نوید اور کامران جاوید نے سپریم کورٹ رجسٹری سے درخواست کی ہیکہ معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن تعطیلاتی بینچ کے روبرو جلد از جلد سماعت کے لئے پیش کی جائے۔