ریاست ہریانہ کے وقف بورڈ تشکیل نوٹیفکیشن کو چیلنج کرنے والی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس مرلی دھر نے اسٹے آرڈر جاری کیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق 13 مارچ کو ہریانہ وقف بورڈ کا چئیرمین منتخب کیا جانا تھا لیکن حکومت کی جانب سے بورڈ کے ممبران کے تعلق سے جاری نوٹیفکیشن کو ہریانہ و پنجاب ہائی کورٹ میں چیلینج کیا۔
عرضی گزار ایڈووکیٹ محمد ارشد نے بتایا کہ اس سلسلے میں آج جسٹس ایس مرلی دھر نے سماعت کرتے ہوئے اسٹے آرڈر جاری کر دیا ہے۔
وکیل محمد ارشد نے بتایا کہ ہریانہ کی حکومت نے وقف بورڈ کی تشکیل غیرقانونی طریقے پر کیا ہے اس میں کئی نکات ایسے ہیں جن کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
ارشد خان نے اس نوٹیفیکیشن کو وقف ایکٹ کی دفعہ 14 کی صریح خلاف ورزی بتایا۔ انہوں نے بتایا کہ ان دفعات کے مطابق ہر ممبر کی کیٹیگری بھی درج ہونی چاہیے اس نوٹیفکیشن میں کسی ایک ممبر کے سامنے بھی اس کی کٹیگری یعنی زمرہ بندی کا ذکر نہیں ہے۔
دفعہ 14 کے مطابق منتخب اراکین کی تعداد ہمیشہ ہی نامزد اراکین سے زیادہ ہوا کرتی ہے ہے لیکن سرکاری نوٹیفیکیشن میں اس بات کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔
نوٹیفیکیشن کے مطابق سیریز نمبر تین کے خورشید احمد خان کو مسلم سینئر ایڈووکیٹ کے زمرے میں رکھا گیا ہے لیکن یہ ممبر سینئر ایڈووکیٹ کی تعریف میں نہیں آتا ہے، نوح حلقہ سے ممبر اسمبلی چودھری آفتاب احمد نے نوٹیفکیشن پر بے اطمنانی کا اظہار کیا۔
حکومت کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں جن ممبران کا ذکر ہے ان کے نام من درجہ ذیل ہیں۔ چودھری ذاکر سین سابق رکن اسمبلی نوح، مامن خان رکن اسمبلی فیروزپور جھرکا ساکن میوات خورشید احمد خان ساکن گرو گرام، تیبر خان ساکن کروکشیترا، عرشی فاطمہ ساکن کرنال، شمیمہ فریدآباد، محبوب ساکن یمنا نگر، محمد عاقل آئی پی ایس گڑگاؤں کا نام شامل ہیں۔
اس فہرست میں چودھری ذاکر حسین کا نام سب سے اوپر ہے اس لیے نئے چیئرمین کے طور پر ان کے انتخاب کی امید کی جا رہی تھی۔ جبکہ مسلم راشٹریہ منچ کے رکن خورشیداحمد کا نام بھی بھی چئیرمین کی دوڑ میں شامل ہے۔