بھارتی عوام سیکولرزم کے دفاع پر دیوانہ وار اُتر آئے ہیں۔ ہندو ، مسلم، سکھ اور عیسائی سب ایک پلیٹ فارم پر نظر آ رہے ہیں اور بی جے پی حکومت بالکل اُلٹی سمت میں کھڑی نظر آ رہی ہے۔
سکھ برادری کے افراد احتجاج میں شامل لوگوں کے لیے لنگر تیار کر رہے ہیں۔ آزاد خیال اور جمہوریت پسند ہندو برادری کے افراد اور طلبا بھی شاہین باغ کے احتجاج میں اپنی آواز شامل کر رہے ہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ پنجاب سے سرداروں کا ایک قافلہ روانہ ہوتا ہے تو دوسرے قافلے کی آمد ہو جاتی ہے۔
سی اے اے، این پی آر اور این آر سی کے خلاف اور شاہین باغ مظاہرین کی حمایت میں اس بار ملیر کوٹلہ اور اس کے اطراف کا ایک بہت بڑا قافلہ شاہین باغ میں خیمہ زن ہے جس میں پنجابی مسلمان بھی شامل ہیں جو مختلف پنڈ سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ ایک دوسرا گروپ پہلے سے ہی شاہین باغ میں موجود ہے۔
سکھوں کی بڑی تعداد دیکھ کر پولیس بھی حرکت میں آئی اور انہیں رات میں ہی قریبی گرودوارے چھوڑ آئی لیکن سکھوں کا ایک قافلہ صبح سے قبل پھر شاہین باغ پہنچ گیا۔
اس گروپ کے رکن مکھن خان نے بتایا کہ 'پولیس نے بہت کوشش کی کہ گرودوارے سے ہم لوگ باہر نہ نکل سکیں لیکن ہماری جدوجہد کے آگے انہیں جھکنا پڑا۔'
انہوں نے کہا کہ 'ہم شاہین باغ کے لوگوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ ملیر کوٹلہ میں 80 فی صد مسلم آبادی ہے۔ اور ہم اس قانون کے خلاف ہیں جسے مودی حکومت کو واپس لینا ہوگا۔'