وزیر اعلی نے کہا کہ جب مالی سال 2020-21 کے دو مہینے کے دوران مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح 7.5 فیصد کم ہوگئی تو زرعی شعبے میں 3.4 فیصد اضافہ ہوا۔
گہلوت نے خط میں کہا کہ 'وزیر اعظم کسانوں کے مفاد اور جمہوری اقدار کے تحفظ کے لیے قوانین پر نظر ثانی کریں'۔
انہوں نے مزید کہا کہ 26 نومبر کو جب ملک یوم آئین منا رہا تھا ، اس وقت کسانوں کو لاٹھی اور واٹر کینن کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
مرکزی حکومت کو فوری طور پر ان کے مطالبات کو سن کر کسانوں کی مشکلات کو حل کرنا چاہئے۔ کسانوں نے اپنے خون اور پسینے سے ملک کی زمین کو سیراب کیا ہے۔
کانگریس رہنما نے کہا کہ 'مرکز نے کسانوں اور ماہرین سے بغیر کسی بحث کے قوانین لایا جبکہ پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے بلوں کو ایک منتخب کمیٹی کو بھیجنے کے مطالبات کو بھی نظرانداز کیا'۔
گہلوت نے مزید کہا کہ 'ان اقدامات میں کم سے کم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) کا ذکر نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے کسانوں میں عدم اعتماد پیدا ہوا ہے'۔
اتوار کے روز دہلی کی حدود میں مختلف مقامات پر احتجاج کرنے والے کسانوں نے مرکزی حکومت کی جانب سے مذاکرات کرنے کی پیش کش کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ "بات چیت شروع کرنے کے لئے شرائط عائد کرنا ان کی توہین ہے"۔
بھارتیہ کسان یونین (بی کے یو) کے پنجاب کے ریاستی صدر سرجیت سنگھ پھول نے سنگھو بارڈر (دہلی - ہریانہ) پر میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 'مرکزی حکومت کی طرف سے اپنے مسئلے کو حل کرنے کے لئے بات چیت کے لئے پیش کش کی گئی تھی۔ ہم نے اس تجویز کو قبول نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اس میں ایک شرط تھی ، سڑکوں پر بیٹھے کسانوں کو بوراری جانے کا کہتے ہیں۔ ہم اس مطالبے کو قبول نہیں کرسکتے ہیں۔ بات چیت کے لئے پیش کی جانے والی شرط کسانوں کی توہین ہے '۔