ریاست اترپردیش، ہریانہ، کرناٹک، مدھیہ پردیش اور آسام کی ریاستی حکومتیں لو جہاد پر قانون بنانے پر غور کر رہی ہیں۔ کچھ ریاستوں نے تو مکمل طور پر ڈرافٹ بھی تیار کر لیا ہے جس میں ملزم قرار پائے جانے پر 5 برس یا 10 برس کی سزا اور غیر ضمانتی دفعات لگانے کی تیاری ہے۔
ایسے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ اس قانون کا مقصد مسلمانوں کے تئیں نئی سازش کو جنم دینا ہے۔ اسی لیے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے دارالحکومت دہلی کے شاہجہان آباد علاقہ میں عوام کے درمیان جاکر بات کی، جس میں کچھ نے اس قانون کی مخالفت کی تو وہیں، کچھ لوگ اس قانون کی حمایت میں نظر آئے۔ حالانکہ اگر بات کی جائے سیاست کی، تو تمام حزب اختلاف کی جماعتیں اس قانون کو گنگا جمنی تہذیب اور بھارتیہ آئین کے خلاف بتا رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مزید 43 چینی ایپز پر پابندی
ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب خود مرکزی حکومت ہی مان چکی ہے کہ لو جہاد نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں، تو پھر کچھ ریاستی حکومتوں کو اس پر قانون لانے کی کیا ضرورت پڑ گئی۔ حالانکہ ای ٹی وی بھارت کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ عشق و محبت اور ازدواجی زندگی میں حکومتی سطح پر دخل اندازی کرنا کہاں تک جائز ہے؟ تاہم جو اس قانون کی حمایت کر رہے ہیں، ان کے مطابق اس قانون کے بننے کے بعد مسلمانوں کو فائدہ ہوگا۔
وہیں، دوسری جانب آج یوگی حکومت نے جبری مذہب کی تبدیلی کی روک تھام کے معاملہ میں سخت قدم اٹھاتے ہوئے ایسے معاملوں کی تحقیقات کے لیے ایگزیکٹیو آرڈر کو منظوری دے دی۔
واضح رہے کہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کچھ روز قبل لو جہاد پر بڑا بیان دیا تھا اور کہا تھا کہ ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت قانون بناتے ہوئے انہیں سخت سزا دی جائے گی۔