دارالحکومت دہلی کے پریس کلب آف انڈیا میں آج سماجی شخصیات نے ایک عوامی اجلاس کا انعقاد کیا۔ جس میں انہوں نے کہا کہ یہ کسی سازش کی تحقیقات نہیں بلکہ ان بے گناہوں کو قید کرنے کی سازش ہے جنہوں نے شہریت ترمیمی قانون پر حکومت کے خلاف احتجاج کیا تھا۔
عمر خالد کو دہلی فسادات کے الزام میں گرفتار ہوئے آج ایک برس مکمّل ہو گیے ہیں۔ اس موقع پر ان تمام سماجی کارکنان کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا، جنہیں دہلی فسادات کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
اس عوامی اجلاس میں راجیہ سبھا رکن پارلیمنٹ منوج کے جھا، پلاننگ کمیشن کی سابق رکن سیدہ حمید، دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان، سینیئر وکیل پرشانت بھوشن وغیرہ موجود رہے۔
اجلاس میں مقررین نے کہا کہ دہلی فسادات کے اصل مجرم ہندوتوا بریگیڈ سے تھے اور پولیس انہیں گرفتار نہ کرنے میں ملوث تھی۔ اس موقع پر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے کہا کہ نوجوانوں جیسے خالد اور دیگر نے "پرامن اور عدم تشدد" مخالف مظاہروں کی حمایت اور مدد کی۔
انہوں نے کہا کہ پولیس نے کپل مشرا جیسے بی جے پی رہنماؤں کی اشتعال انگیز تقاریر کو نظر انداز کیا ہے۔ یہ واضح تھا کہ یہ تقریریں فسادات پیدا کرنے کے لیے تھیں۔ پولیس نے پرامن مظاہرین کی پٹائی کی۔ انہوں نے اصل فسادیوں کی مدد کی اور بے گناہوں کو نشانہ بنایا۔"
انہوں نے کہا کہ یہ سازش کی تحقیقات نہیں بلکہ بے گناہوں کو قید کرنے کی سازش ہے۔
انہوں نے کہا کہ خالد کو یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا جا سکتا ہے لیکن ہندوتوا کے رہنما جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کا مطالبہ کیا تھا، ان پر معمولی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تاکہ انہیں آسانی سے ضمانت مل سکے۔
یہ بھی پڑھیں: پیگاسس جاسوسی: سپریم کورٹ نے عبوری حکم محفوظ رکھا
وہیں سیدہ حمید نے کہا کہ 'خالد کا قصور صرف آئین کو برقرار رکھنا اور سی اے اے، این پی آر، این آر سی کی مخالفت کرنا تھا۔ اس نے شاہین باغ کی خواتین کو سلام کیا اور گاندھی جی کے نظریات کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا۔ حکومت اس جرات سے خوفزدہ تھی۔ ان کے لیے ایک پڑھا لکھا مسلمان آنکھوں کا زخم ہے۔'