ETV Bharat / state

پروفیسر خالد محمود، اردو زبان و تہذیب کو جیتے ہیں: جینابڑے

author img

By

Published : Feb 15, 2021, 5:33 PM IST

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر خالد محمود کی ہمہ جہت صلاحیت کی ستائش کرتے ہوئے جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے استاد اور معروف فکشن نگار پروفیسر معین الدین جینابڑے نے کہا کہ 'اب ایسی پرلطف نثر خال خال ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔'

پروفیسر خالد محمود، وہ اردو زبان و تہذیب کو جیتے ہیں: جینابڑے
پروفیسر خالد محمود، وہ اردو زبان و تہذیب کو جیتے ہیں: جینابڑے

یہ بات انہوں نے ادارہ ادبِ اسلامی ہند اور فورم فار انٹیلیکچوئل ڈسکورس کے زیر اہتمام پروفیسر خالد محمود کے مجموعۂ مضامین 'نقوش معنی' پر مذاکرے میں صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ پروفیسر خالد محمود کے دلکش اور سحرآفریں اسلوب کے حوالے سے اردو شعر و ادب سے خالد محمود کا تعلق محض پیشہ وارانہ نہیں بلکہ یہ ان کے جذبہ و روح سے وابستہ مسئلہ ہے۔ وہ اردو زبان و تہذیب کو جیتے ہیں۔ ان کی زندگی اور شخصیت عشق و جنوں کا استعارہ ہے۔

صاحب کتاب پروفیسر خالد محمود نے اظہارِ تشکر کرتے ہوئے کہا کہ کتاب پر مذاکرے کا یہ طریقہ بے حد بامعنی اور نتیجہ خیز رہا۔ میں نے 72 سال کی عمر میں ادبی مذاکرے کا ایسا البیلا اور نرالا انداز کبھی نہیں دیکھا۔ تمام شرکا نے میرے دس مقالات کا الگ الگ اور بھرپور تجزیہ پیش کیا۔ ورنہ عموماً مذاکرات میں ہوائی اور سرسری باتیں ہوتی ہیں۔

مہمان خصوصی مشہور اسلامی ماہر معاشیات اور فکشن نگار ڈاکٹر وقار انور نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ خالد محمود کے مضامین کو پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے معلمانہ مقام ومرتبے اور اس کی ذمہ داریوں سے بخوبی واقف ہیں۔ بطور خاص طنز و مزاح کے حوالے سے رشید احمد صدیقی اور عظیم بیگ چغتائی پر ان کے مقالات کو میں ان دونوں عظیم طنز و مزاح نگاروں کی ازسرِ نو بازیافت کا عمل تصور کرتا ہوں۔

مذاکرے میں ڈاکٹر واحد نظیر نے خالد محمود کے مقالہ 'آبرو کا رنگ سخن'، ڈاکٹر معید الرحمٰن نے 'عبدالغفور نساخ کی خودنوشت سوانح'، تالیف حیدر نے 'فراق کی رباعیات'، منظر امام نے 'حکیم ظل الرحمٰن اور بھوپال کا علمی و ادبی کارواں' اور سفیر صدیقی نے 'مکالمہ جبریل و ابلیس' کے حوالے سے بھرپور تجزیاتی مطالعات پیش کیے۔

جلسے میں پروفیسر تسنیم فاطمہ، راشد جمال فاروقی، ڈاکٹر شاذیہ عمیر، ڈاکٹر انوارالحق، ڈاکٹر راشدہ رحمٰن، ڈاکٹر فیضان شاہد، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر سلمان فیصل اور ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی کے علاوہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی یونیورسٹی اور جے این یو کے ریسرچ اسکالرس بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔

قبل ازیں ادارہ ادبِ اسلامی، حلقہ دہلی کے سکریٹری عرفان وحید نے مہمانان کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ اچھی کتابوں پر مذاکروں کا انعقاد ادارے کے منصوبے میں شامل ہے۔

انھوں نے کہا کہ بلامبالغہ دہلی نے وبائی دور میں آج ایک سال بعد اتنے بڑے ادبی جلسے کا نظارہ کورونا کے حوالے سے تمام حفاظتی تدابیر کے ساتھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ مذاکرے کی نظامت کے فرائض ادراہ ادبِ اسلامی، حلقہ دہلی کے صدر ڈاکٹر خالد مبشر نے انجام دیے۔

واضح رہے کہ معتبرخاکہ نگار، انشائیہ نگار، شاعر، ناقد، محقق، معلم، مترجم، سابق صدر شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، سابق وائس چیئرمین دہلی اردو اکادمی اور سابق منیجنگ ڈائریکٹر مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ پروفیسر خالد محمود کی ستائیسویں کتاب 'نقوشِ معنی' (مجموعہئ مضامین) پر اردو میں ایک نئے طرز کے ادبی مذاکرے کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اس مذاکرے کاامتیاز یہ تھا کہ اس میں پوری کتاب پر سرسری گفتگو کے بجائے ہر مضمون پر مقررین نے الگ الگ اظہارِ خیال کیا۔ مذاکرے کے آغاز میں اس امر کا بھی اہتمام کیا گیا کہ کتاب کے مختلف اقتباسات کی بلندخوانی کے ذریعے اس کتاب کے مختلف رنگ و آہنگ کو نمایاں کیاجائے۔

یہ بات انہوں نے ادارہ ادبِ اسلامی ہند اور فورم فار انٹیلیکچوئل ڈسکورس کے زیر اہتمام پروفیسر خالد محمود کے مجموعۂ مضامین 'نقوش معنی' پر مذاکرے میں صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ پروفیسر خالد محمود کے دلکش اور سحرآفریں اسلوب کے حوالے سے اردو شعر و ادب سے خالد محمود کا تعلق محض پیشہ وارانہ نہیں بلکہ یہ ان کے جذبہ و روح سے وابستہ مسئلہ ہے۔ وہ اردو زبان و تہذیب کو جیتے ہیں۔ ان کی زندگی اور شخصیت عشق و جنوں کا استعارہ ہے۔

صاحب کتاب پروفیسر خالد محمود نے اظہارِ تشکر کرتے ہوئے کہا کہ کتاب پر مذاکرے کا یہ طریقہ بے حد بامعنی اور نتیجہ خیز رہا۔ میں نے 72 سال کی عمر میں ادبی مذاکرے کا ایسا البیلا اور نرالا انداز کبھی نہیں دیکھا۔ تمام شرکا نے میرے دس مقالات کا الگ الگ اور بھرپور تجزیہ پیش کیا۔ ورنہ عموماً مذاکرات میں ہوائی اور سرسری باتیں ہوتی ہیں۔

مہمان خصوصی مشہور اسلامی ماہر معاشیات اور فکشن نگار ڈاکٹر وقار انور نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ خالد محمود کے مضامین کو پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے معلمانہ مقام ومرتبے اور اس کی ذمہ داریوں سے بخوبی واقف ہیں۔ بطور خاص طنز و مزاح کے حوالے سے رشید احمد صدیقی اور عظیم بیگ چغتائی پر ان کے مقالات کو میں ان دونوں عظیم طنز و مزاح نگاروں کی ازسرِ نو بازیافت کا عمل تصور کرتا ہوں۔

مذاکرے میں ڈاکٹر واحد نظیر نے خالد محمود کے مقالہ 'آبرو کا رنگ سخن'، ڈاکٹر معید الرحمٰن نے 'عبدالغفور نساخ کی خودنوشت سوانح'، تالیف حیدر نے 'فراق کی رباعیات'، منظر امام نے 'حکیم ظل الرحمٰن اور بھوپال کا علمی و ادبی کارواں' اور سفیر صدیقی نے 'مکالمہ جبریل و ابلیس' کے حوالے سے بھرپور تجزیاتی مطالعات پیش کیے۔

جلسے میں پروفیسر تسنیم فاطمہ، راشد جمال فاروقی، ڈاکٹر شاذیہ عمیر، ڈاکٹر انوارالحق، ڈاکٹر راشدہ رحمٰن، ڈاکٹر فیضان شاہد، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر سلمان فیصل اور ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی کے علاوہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی یونیورسٹی اور جے این یو کے ریسرچ اسکالرس بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔

قبل ازیں ادارہ ادبِ اسلامی، حلقہ دہلی کے سکریٹری عرفان وحید نے مہمانان کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ اچھی کتابوں پر مذاکروں کا انعقاد ادارے کے منصوبے میں شامل ہے۔

انھوں نے کہا کہ بلامبالغہ دہلی نے وبائی دور میں آج ایک سال بعد اتنے بڑے ادبی جلسے کا نظارہ کورونا کے حوالے سے تمام حفاظتی تدابیر کے ساتھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ مذاکرے کی نظامت کے فرائض ادراہ ادبِ اسلامی، حلقہ دہلی کے صدر ڈاکٹر خالد مبشر نے انجام دیے۔

واضح رہے کہ معتبرخاکہ نگار، انشائیہ نگار، شاعر، ناقد، محقق، معلم، مترجم، سابق صدر شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، سابق وائس چیئرمین دہلی اردو اکادمی اور سابق منیجنگ ڈائریکٹر مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ پروفیسر خالد محمود کی ستائیسویں کتاب 'نقوشِ معنی' (مجموعہئ مضامین) پر اردو میں ایک نئے طرز کے ادبی مذاکرے کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اس مذاکرے کاامتیاز یہ تھا کہ اس میں پوری کتاب پر سرسری گفتگو کے بجائے ہر مضمون پر مقررین نے الگ الگ اظہارِ خیال کیا۔ مذاکرے کے آغاز میں اس امر کا بھی اہتمام کیا گیا کہ کتاب کے مختلف اقتباسات کی بلندخوانی کے ذریعے اس کتاب کے مختلف رنگ و آہنگ کو نمایاں کیاجائے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.