ETV Bharat / state

طلباء اورنوجوانوں کی گرفتاری کے خلاف آن لائن مشترکہ پریس کانفرنس

طلباء اور نوجوانوں کی گرفتاری کے خلاف ایک آن لائن مشترکہ پریس کانفرنس منعقد ہوئی۔اس کانفرنس کو سپریم کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن، راجیہ سبھا کے ممبر منوج کمار جھا، دلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند،جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر، ای جے پی کی سکریٹری تیستا شیتلواڑ، آل انڈیا مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد اور سماجی کارکن کویتا کرشنن نے خطاب کیا

author img

By

Published : May 21, 2020, 7:49 PM IST

گرفتاری کے خلاف آن لائن مشترکہ پریس کانفرنس
گرفتاری کے خلاف آن لائن مشترکہ پریس کانفرنس

اس کانفرنس میں مجموعی طور پر یہ بات کہی گئی کہ کورونا وائرس وبا اور لاک ڈاؤن کے دوران دہلی پولیس کے ذریعہ سی اے اے مخالف تحریک میں پیش پیش رہنے والے لوگوں اور طلبہ کی گرفتاری کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ صفورہ زرگر، میران حیدر اور شفاء الرحمن کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک اور طالب علم آصف اقبال تنہا کو حال ہی میں گرفتار کیا گیا ہے۔

16 مئی کو آصف اقبال کو دہلی پولیس کی اسپیشل سیل پوچھ گچھ کرنے کے لئے لے گئی تھی لیکن 17 مئی کو ہی کرائم برانچ چانکیہ پوری، دہلی نے انہیں گرفتار کر لیا۔ 15 دسمبر 2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہوئے تشدد کے معاملے میں انہیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا اور وہاں سے گرفتار کر لیا گیا۔ سند رہے کہ جامعہ کے طلبہ نے ہی اس رات ہوئے تشدد کا سب سے زیادہ نقصان اٹھایا تھا جب پولیس اور اسپیشل فورسز نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کیمپس میں داخل ہوکر طلبہ کے ساتھ مارپیٹ کی اور لائبریری کو نقصان پہنچایا۔

پولیس نے آصف کو گرفتار کر کے پولیس کسٹڈی کی مانگ کی لیکن مجسٹریٹ نے انکار کر دیا کیونکہ آصف سے پہلے بھی کئی مرتبہ پولیس پوچھ گچھ کر چکی ہے اور اس معاملے میں پولیس پہلے ہی چارج شیٹ داخل کر چکی ہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ آصف کے رول سے متعلق ابھی کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے اسی لیے اس کے خلاف چارج شیٹ داخل نہیں کی گئی ہے۔ مجسٹریٹ نے آصف کو 14 دن کی جوڈیشل کسٹڈی میں تہاڑ جیل بھیج دیا۔

کپڑے دینے کے لئے کرائم برانچ میں آصف سے ملنے گئے اس کے دوستوں نے بتایا کہ آصف کو دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے 16 مئی کے دن پیٹا تھا۔ آصف نے آج اپنے ایک قریبی دوست کو بتایا ہے کہ اسے تہاڑ جیل کے اندر ایک منشی نے محض جامعہ کے طالب علم ہونے کی وجہ سے پیٹا گیا ہے۔

اب 19 مئی کو اسپیشل سیل نے آصف کو دوبارہ گرفتار کیا اور اب اسے ایف آئی آر نمبر 59 کے تحت نارتھ ایسٹ دہلی کے فسادات سے جوڑا جا رہا ہے۔ اسے 7 دن کی پولیس حراست میں لے لیا گیا ہے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اب ایک پیٹرن بن گیا ہے کہ پہلے کسی کو ایک کیس میں گرفتار کریں اور جب اس کی ضمانت کی امید نظر آئے تو اسے ایف آئی آر نمبر 59 میں بھی شامل کر دیا جائے۔ دہلی پولیس سی اے اے مخالف تحریک سے جڑے لوگوں کے ساتھ لگاتار یہی کر رہی ہے۔

نارتھ ایسٹ دہلی فسادات میں ایف آئی آر 59 کا معاملہ:

یہ ایف آئی آر نارتھ ایسٹ دہلی میں ہوئے فسادات کو بنیاد بنا کر درج کی گئی تھی جس میں شروعات میں 23-27 فروری کے درمیان سبھی قابل ضمانت چارج تھے۔ 12 مارچ کو گرفتار کئے گئے لیڈران محمد دانش، پرویز عالم اور محمد الیاس کو 14 مارچ کے دن ضمانت دے دی گئی اور مجسٹریٹ پربھا دیپ کور نے گرفتاری کے دن تھانے سے ہی ضمانت نہ دینے کے لئے پولیس کو پھٹکار بھی لگائی تھی۔ ”یہ ایک سلجھا ہوا اصول ہے کہ قابل ضمانت جرائم میں بادی النظر مجرم قرار دئیے گئے لوگوں کو ضمانت دینا IO کی ذمہ داری ہے۔“ IO کی جانب سے کوئی وضاحت نہیں دی گئی کہ انہوں نے ضمانت کیوں نہیں دی۔

اس خصوصی ایف آئی آر کو پھر سے رد کر دیا گیا جب کھریجی سے گرفتار ایک وکیل عشرت جہاں کو پچھلے معاملے میں ضمانت دی گئی۔ خالد سیفی کو اس خصوصی ایف آئی آر کی بنیاد پر پھر سے گرفتار کر لیا گیا اور اس مرتبہ اس میں 302 جیسی کڑی دھارائیں لگا دی گئیں اور عشرت جہاں کی ضمانت بھی رد کر دی گئی۔

اس کے علاوہ 13 اپریل کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طالبہ صفورہ زرگر کو جعفر آباد میں تشدد کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ جب انہیں ضمانت دی گئی تو پولیس نے اسی اسپیشل ایف آئی آر 59 کے تحت انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا۔ اسی طرح ایک اور طالبہ اور سی اے اے مخالف تحریک کی کارکن گل فشاں کو جعفر آباد تشدد کے معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا اور ضمانت ملنے پر اسی ایف آئی آر 59 میں شامل کر دیا گیا۔

اب آصف اقبال کی گرفتاری میں بھی ہم نے یہی پیٹرن دیکھا۔ ایف آئی آر 59 میں میران حیدر اور صفورہ زرگر کی گرفتاری کے بعد پولیس نے اس میں یو اے پی اے کی کڑی دھارائیں اور جوڑ دیں ہیں، حالانکہ وہ یہ بھی بتانے کو تیار نہیں ہیں کہ سبھی پر یو اے پی اے لگایا ہے یا کچھ ہی لوگوں پر۔ اس ایف آئی آر کے تحت اب سبھی کو یو اے پی اے کے تحت پھنسایا جا رہا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ alumni association کے شفاء الرحمن کو بھی اسی ایف آئی آر کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ اسی لیے اب یہ pattern بہت واضح ہے کہ پہلے کسی کو کسی اور معاملے میں گرفتار کیا جاتا ہے اور جب اس کی ضمانت کی امید نظر آتی ہے تو اسے ایف آئی آر 59 میں شامل کر پھنسا دیا جاتا ہے۔

یہ ایف آئی آر جو قابل ضمانت دفعات کے ساتھ شروع ہوئی تھی، اب تقریباً ایک دہشت گردی مخالف کارروائی میں بدل گئی ہے اور خاص طور پر سی اے اے مخالف تحریک کے کارکنان اور طلبہ و طالبات کو نشانہ بنا رہی ہے اور انہیں دہشت گرد کے طور پر ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے جو نارتھ ایسٹ دہلی میں فسادات کے لئے ذمہ دار تھے۔ مزید یہ کہ ایف آئی آر جیسے عام لفظ کی آڑ میں اس قدر کڑی دھاراوں کا استعمال ان کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ یہ نوٹ کیا جانا ضروری ہے کہ دہلی فسادات میں اپنی جان اور مال کھونے والے زیادہ تر لوگ مسلمان تھے اور اس ایف آئی آر میں بھی جن لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ہے وہ سب بھی مسلمان ہیں۔ یہ صاف طور پر دہلی پولیس کے مسلم مخالف رویے کو ظاہر کرتا ہے کہ کیسے وہ دہلی فسادات کو بنیاد بنا کر مسلمان طلبہ اور سی اے اے مخالف تحریک کے کارکنان کو نشانہ بنا رہی ہے۔

دہلی پولیس کی بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے تین مہینے کی حاملہ طالبہ صفورہ زرگر کو گرفتار کر زندان میں ڈال دیا ہے اور اسے رہا کرنے سے منع کر رہی ہے۔ کورونا وائرس کی وبا اور لاک ڈاؤن کے دوران دہلی پولیس طلبہ اور سی اے اے مخالف تحریک کے کارکنان کو لگاتار پوچھ گچھ کے لیے بلاتی رہی، لاک ڈاؤن کے دوران اسے روکنے کے لیے بار بار اپیل کی گئی لیکن دہلی پولیس نے اپنے ہیڈ کانسٹیبل کو کورونا پازیٹو پائے جانے کے باوجود ان لوگوں کو اسپیشل سیل آفس میں بلا کر پوچھ گچھ کرنا جاری رکھا۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ دہلی پولیس لگاتار ان لوگوں پر دباؤ ڈال رہی ہے اور پریشان کر رہی ہے کہ یہ لوگ پولیس کی جانب سے جھوٹی گواہی دینے کو تیار ہو جائیں جنہیں وعدہ معاف گواہ کہا جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دہلی پولیس کے پاس ان گرفتاریوں کے حوالے سے کوئی ثبوت نہیں ہے اور وہ اپنی نقلی کہانی کو سچ بنانے کے لیے سی اے اے کے خلاف پیش پیش رہے لوگوں کو ڈرا کر اپنا گواہ بنانا چاہتی ہے۔

ہم سی اے اے مخالف تحریک کے کارکنان اور طلبہ و طالبات کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ دہلی پولیس کے ذریعے ان لوگوں سے سادہ کاغذات پر زبردستی دستخط کرانے کا عمل ان کی بے حسی کو دکھاتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دہلی پولیس فسادات کے کیس کا استعمال صرف ان کارکنان اور طلبہ و طالبات کو تنگ کرنے کے لیے کر رہی ہے۔ ہم ان سبھی طلبہ و طالبات اور سی اے اے مخالف تحریک کے کارکنان کی رہائی کی مانگ کرتے ہیں۔ ہم اس پر امن تحریک کے کارکنان اور طالب علموں پر یو اے پی اے جیسے قوانین کے استعمال کی پر زور مذمت کرتے ہیں۔

1۔ ہم دہلی فسادات کی تحقیق کے لیے ایک independent committee کی مانگ کرتے ہیں جو درج ذیل نکات پر تحقیق کرے۔

2۔ فساد جس دن ہوا اس دن سڑک بند کرنے کی اپیل کس نے کی تھی؟ کیا اس پارٹی سے کوئی پوچھ گچھ ہوئی؟

3۔ سو دنوں سے پر امن طریقہ سے چل رہی سی اے اے مخالف تحریک کو فساد اور تشدد کی ضرورت ہی نہیں تھی، پھر وہ کون لوگ تھے جنہوں نے بھیڑ کو اکسایا؟

4۔ سوشل میڈیا کی سبھی videosکی جانچ ہو اور ان کے بنانے والوں سے وقت، جگہ اور اس میں شامل لوگوں کی پہچان کرائی جائے۔

5۔ طلبہ و دیگر کارکنان کو جھوٹے معاملات میں پھنسانے کی سازش میں شامل پولیس و دیگر لوگوں کے خلاف چانچ کی جائے۔

اس کانفرنس میں مجموعی طور پر یہ بات کہی گئی کہ کورونا وائرس وبا اور لاک ڈاؤن کے دوران دہلی پولیس کے ذریعہ سی اے اے مخالف تحریک میں پیش پیش رہنے والے لوگوں اور طلبہ کی گرفتاری کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ صفورہ زرگر، میران حیدر اور شفاء الرحمن کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک اور طالب علم آصف اقبال تنہا کو حال ہی میں گرفتار کیا گیا ہے۔

16 مئی کو آصف اقبال کو دہلی پولیس کی اسپیشل سیل پوچھ گچھ کرنے کے لئے لے گئی تھی لیکن 17 مئی کو ہی کرائم برانچ چانکیہ پوری، دہلی نے انہیں گرفتار کر لیا۔ 15 دسمبر 2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہوئے تشدد کے معاملے میں انہیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا اور وہاں سے گرفتار کر لیا گیا۔ سند رہے کہ جامعہ کے طلبہ نے ہی اس رات ہوئے تشدد کا سب سے زیادہ نقصان اٹھایا تھا جب پولیس اور اسپیشل فورسز نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کیمپس میں داخل ہوکر طلبہ کے ساتھ مارپیٹ کی اور لائبریری کو نقصان پہنچایا۔

پولیس نے آصف کو گرفتار کر کے پولیس کسٹڈی کی مانگ کی لیکن مجسٹریٹ نے انکار کر دیا کیونکہ آصف سے پہلے بھی کئی مرتبہ پولیس پوچھ گچھ کر چکی ہے اور اس معاملے میں پولیس پہلے ہی چارج شیٹ داخل کر چکی ہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ آصف کے رول سے متعلق ابھی کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے اسی لیے اس کے خلاف چارج شیٹ داخل نہیں کی گئی ہے۔ مجسٹریٹ نے آصف کو 14 دن کی جوڈیشل کسٹڈی میں تہاڑ جیل بھیج دیا۔

کپڑے دینے کے لئے کرائم برانچ میں آصف سے ملنے گئے اس کے دوستوں نے بتایا کہ آصف کو دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے 16 مئی کے دن پیٹا تھا۔ آصف نے آج اپنے ایک قریبی دوست کو بتایا ہے کہ اسے تہاڑ جیل کے اندر ایک منشی نے محض جامعہ کے طالب علم ہونے کی وجہ سے پیٹا گیا ہے۔

اب 19 مئی کو اسپیشل سیل نے آصف کو دوبارہ گرفتار کیا اور اب اسے ایف آئی آر نمبر 59 کے تحت نارتھ ایسٹ دہلی کے فسادات سے جوڑا جا رہا ہے۔ اسے 7 دن کی پولیس حراست میں لے لیا گیا ہے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اب ایک پیٹرن بن گیا ہے کہ پہلے کسی کو ایک کیس میں گرفتار کریں اور جب اس کی ضمانت کی امید نظر آئے تو اسے ایف آئی آر نمبر 59 میں بھی شامل کر دیا جائے۔ دہلی پولیس سی اے اے مخالف تحریک سے جڑے لوگوں کے ساتھ لگاتار یہی کر رہی ہے۔

نارتھ ایسٹ دہلی فسادات میں ایف آئی آر 59 کا معاملہ:

یہ ایف آئی آر نارتھ ایسٹ دہلی میں ہوئے فسادات کو بنیاد بنا کر درج کی گئی تھی جس میں شروعات میں 23-27 فروری کے درمیان سبھی قابل ضمانت چارج تھے۔ 12 مارچ کو گرفتار کئے گئے لیڈران محمد دانش، پرویز عالم اور محمد الیاس کو 14 مارچ کے دن ضمانت دے دی گئی اور مجسٹریٹ پربھا دیپ کور نے گرفتاری کے دن تھانے سے ہی ضمانت نہ دینے کے لئے پولیس کو پھٹکار بھی لگائی تھی۔ ”یہ ایک سلجھا ہوا اصول ہے کہ قابل ضمانت جرائم میں بادی النظر مجرم قرار دئیے گئے لوگوں کو ضمانت دینا IO کی ذمہ داری ہے۔“ IO کی جانب سے کوئی وضاحت نہیں دی گئی کہ انہوں نے ضمانت کیوں نہیں دی۔

اس خصوصی ایف آئی آر کو پھر سے رد کر دیا گیا جب کھریجی سے گرفتار ایک وکیل عشرت جہاں کو پچھلے معاملے میں ضمانت دی گئی۔ خالد سیفی کو اس خصوصی ایف آئی آر کی بنیاد پر پھر سے گرفتار کر لیا گیا اور اس مرتبہ اس میں 302 جیسی کڑی دھارائیں لگا دی گئیں اور عشرت جہاں کی ضمانت بھی رد کر دی گئی۔

اس کے علاوہ 13 اپریل کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طالبہ صفورہ زرگر کو جعفر آباد میں تشدد کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ جب انہیں ضمانت دی گئی تو پولیس نے اسی اسپیشل ایف آئی آر 59 کے تحت انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا۔ اسی طرح ایک اور طالبہ اور سی اے اے مخالف تحریک کی کارکن گل فشاں کو جعفر آباد تشدد کے معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا اور ضمانت ملنے پر اسی ایف آئی آر 59 میں شامل کر دیا گیا۔

اب آصف اقبال کی گرفتاری میں بھی ہم نے یہی پیٹرن دیکھا۔ ایف آئی آر 59 میں میران حیدر اور صفورہ زرگر کی گرفتاری کے بعد پولیس نے اس میں یو اے پی اے کی کڑی دھارائیں اور جوڑ دیں ہیں، حالانکہ وہ یہ بھی بتانے کو تیار نہیں ہیں کہ سبھی پر یو اے پی اے لگایا ہے یا کچھ ہی لوگوں پر۔ اس ایف آئی آر کے تحت اب سبھی کو یو اے پی اے کے تحت پھنسایا جا رہا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ alumni association کے شفاء الرحمن کو بھی اسی ایف آئی آر کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ اسی لیے اب یہ pattern بہت واضح ہے کہ پہلے کسی کو کسی اور معاملے میں گرفتار کیا جاتا ہے اور جب اس کی ضمانت کی امید نظر آتی ہے تو اسے ایف آئی آر 59 میں شامل کر پھنسا دیا جاتا ہے۔

یہ ایف آئی آر جو قابل ضمانت دفعات کے ساتھ شروع ہوئی تھی، اب تقریباً ایک دہشت گردی مخالف کارروائی میں بدل گئی ہے اور خاص طور پر سی اے اے مخالف تحریک کے کارکنان اور طلبہ و طالبات کو نشانہ بنا رہی ہے اور انہیں دہشت گرد کے طور پر ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے جو نارتھ ایسٹ دہلی میں فسادات کے لئے ذمہ دار تھے۔ مزید یہ کہ ایف آئی آر جیسے عام لفظ کی آڑ میں اس قدر کڑی دھاراوں کا استعمال ان کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ یہ نوٹ کیا جانا ضروری ہے کہ دہلی فسادات میں اپنی جان اور مال کھونے والے زیادہ تر لوگ مسلمان تھے اور اس ایف آئی آر میں بھی جن لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ہے وہ سب بھی مسلمان ہیں۔ یہ صاف طور پر دہلی پولیس کے مسلم مخالف رویے کو ظاہر کرتا ہے کہ کیسے وہ دہلی فسادات کو بنیاد بنا کر مسلمان طلبہ اور سی اے اے مخالف تحریک کے کارکنان کو نشانہ بنا رہی ہے۔

دہلی پولیس کی بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے تین مہینے کی حاملہ طالبہ صفورہ زرگر کو گرفتار کر زندان میں ڈال دیا ہے اور اسے رہا کرنے سے منع کر رہی ہے۔ کورونا وائرس کی وبا اور لاک ڈاؤن کے دوران دہلی پولیس طلبہ اور سی اے اے مخالف تحریک کے کارکنان کو لگاتار پوچھ گچھ کے لیے بلاتی رہی، لاک ڈاؤن کے دوران اسے روکنے کے لیے بار بار اپیل کی گئی لیکن دہلی پولیس نے اپنے ہیڈ کانسٹیبل کو کورونا پازیٹو پائے جانے کے باوجود ان لوگوں کو اسپیشل سیل آفس میں بلا کر پوچھ گچھ کرنا جاری رکھا۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ دہلی پولیس لگاتار ان لوگوں پر دباؤ ڈال رہی ہے اور پریشان کر رہی ہے کہ یہ لوگ پولیس کی جانب سے جھوٹی گواہی دینے کو تیار ہو جائیں جنہیں وعدہ معاف گواہ کہا جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دہلی پولیس کے پاس ان گرفتاریوں کے حوالے سے کوئی ثبوت نہیں ہے اور وہ اپنی نقلی کہانی کو سچ بنانے کے لیے سی اے اے کے خلاف پیش پیش رہے لوگوں کو ڈرا کر اپنا گواہ بنانا چاہتی ہے۔

ہم سی اے اے مخالف تحریک کے کارکنان اور طلبہ و طالبات کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ دہلی پولیس کے ذریعے ان لوگوں سے سادہ کاغذات پر زبردستی دستخط کرانے کا عمل ان کی بے حسی کو دکھاتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دہلی پولیس فسادات کے کیس کا استعمال صرف ان کارکنان اور طلبہ و طالبات کو تنگ کرنے کے لیے کر رہی ہے۔ ہم ان سبھی طلبہ و طالبات اور سی اے اے مخالف تحریک کے کارکنان کی رہائی کی مانگ کرتے ہیں۔ ہم اس پر امن تحریک کے کارکنان اور طالب علموں پر یو اے پی اے جیسے قوانین کے استعمال کی پر زور مذمت کرتے ہیں۔

1۔ ہم دہلی فسادات کی تحقیق کے لیے ایک independent committee کی مانگ کرتے ہیں جو درج ذیل نکات پر تحقیق کرے۔

2۔ فساد جس دن ہوا اس دن سڑک بند کرنے کی اپیل کس نے کی تھی؟ کیا اس پارٹی سے کوئی پوچھ گچھ ہوئی؟

3۔ سو دنوں سے پر امن طریقہ سے چل رہی سی اے اے مخالف تحریک کو فساد اور تشدد کی ضرورت ہی نہیں تھی، پھر وہ کون لوگ تھے جنہوں نے بھیڑ کو اکسایا؟

4۔ سوشل میڈیا کی سبھی videosکی جانچ ہو اور ان کے بنانے والوں سے وقت، جگہ اور اس میں شامل لوگوں کی پہچان کرائی جائے۔

5۔ طلبہ و دیگر کارکنان کو جھوٹے معاملات میں پھنسانے کی سازش میں شامل پولیس و دیگر لوگوں کے خلاف چانچ کی جائے۔

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.