آل انڈیا اردو ایڈیٹرز کانفرنس کے صدر اور سابق رکن پارلیمان اور سفیر جناب م۔ افضل نے کہا کہ 'نصرت ظہیر گونا گوں صلاحیتوں کے حامل تھے۔ وہ ایک بے باک، نڈر اور صاف گو صحافی تھے۔ ایک بہترین مزاح نگار، ادیب اور کالم نگار اور مترجم کے طور پر بھی ان کی شناخت مستحکم ہے۔ انھوں نے ’ادب ساز‘ کے خصوصی شماروں کے ذریعہ اپنی بہترین مدیرانہ صلاحیتوں کا احساس کرایا۔ ان کے انتقال سے دہلی کی ادبی اور صحافتی زندگی میں گہرا خلاء پیدا ہوگیا ہے'۔
واضح رہے کہ نصرت ظہیر کا گزشتہ 22 جولائی کو 69 برس کی عمر میں انتقال ہوگیا تھا۔ وہ سرطان کے عارضہ میں مبتلا تھے اور آبائی وطن سہارنپور منتقل ہوگئے تھے۔ وہیں گزشتہ روز سرکاری اعزاز کے ساتھ ان کی تدفین عمل میں آئی۔
کانفرنس کے سیکریٹری اور سینئر صحافی معصوم مرادآبادی نے کہا کہ 'نصرت ظہیر نے دہلی میں اپنے صحافتی کیریر کا آغاز 80 کی دہائی میں روزنامہ ’ملاپ‘ سے بطور سب ایڈیٹر کیا تھا، جہاں وہ مشہور و معروف مزاح نگار آنجہانی فکرتونسوی کی سرپرستی میں کام کرتے تھے۔ اسی دوران ان کے اندر طنزیہ اور مزاحیہ تحریریں لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ اس زمانے میں فکرتونسوی اپنا مقبول عام مزاحیہ کالم ’پیاز کے چھلکے‘ لکھا کرتے تھے۔ اس کے بعد دہلی سے روزنامہ ’قومی آواز‘ شروع ہونے کے بعد وہ اس سے وابستہ ہوگئے اور ’قومی آواز‘ کی اشاعت بند ہونے تک اس سے بطور چیف رپورٹر وابستہ رہے۔ وہ ایک سرگرم اورمتحرک انسان تھے'۔
کانفرنس کے خزانچی مودود صدیقی نے کہا کہ'نصرت ظہیر سے میرے دیرینہ مراسم تھے۔ انھوں نے نہایت سرگرم زندگی گزاری۔ لیکن ان کے آخری ایام کچھ زیادہ اچھے نہیں رہے۔ آخر میں جن دنوں وہ نیوز18 اردو میں بطور مشیر کام کر رہے تھے تو یہ دورانیہ ان کی بیماری اور تکلیفوں کا تھا‘ لیکن آخر تک انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور وہ سرگرم عمل رہے۔ انھوں نے ایک صحافی اور مزاح نگار کے طور پر اپنی جدوجہد اور محنت سے پہچان بنائی'۔