نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے جاری کیے گئے اپنے بیانیہ میں کہا ہے کہ بھارت جیسے ملک میں جہاں ہمیشہ سے لوگ مذہبی روایات اور اخلاقی اقدار کے پابند رہے ہیں اور بالخصوص جو باتیں مذاہب کے درمیان مشترک ہیں ہمیشہ ان کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے، سپریم کورٹ میں ہم جنسوں کے درمیان شادی سے متعلق جو درخواست پیش کی گئی ہے، اس کے مطابق درخواست گزار چاہتا ہے کہ قانون ایسی شادی کو تسلیم کرلے۔ یہ مطالبہ نہ کسی مذہب کے لیے قابل قبول ہے اور نہ کوئی مہذب سماج اسے گوارا کرسکتا ہے، خوش آئند بات یہ ہے کہ حکومت نے سپریم کورٹ میں اس درخواست کی مخالفت کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
جنرل سکریٹری بورڈ نے اپنے بیانیہ میں کہا ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اس موقف کی تائید کرتا ہے، نیز حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم جنسی کے فعل کو بھی جرم کے دائرہ میں برقرار رکھا جائے، اس وقت سپریم کورٹ میں جو مقدمہ چل رہا ہے اگر بورڈ نے ضرورت محسوس کی تو وہ بھی اس میں فریق بننے کی کوشش کرے گا۔ قابل ذکر ہے کہ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ کی قیادت والی بنچ نے ہم جنس شادیوں کو قانونی طور پر تسلیم کرنے کی درخواستوں کو سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی آئینی بنچ کو دیا ہے۔ عدالت نے کیس کو 18 اپریل کو حتمی دلائل کے لیے درج کیا ہے۔
اپنے حلف نامے میں مرکز نے سپریم کورٹ میں ہم جنس شادیوں کو مسترد کرتے ہوئے اس کو "قبول شدہ نظریہ" نہیں قرار دینے کی بات کہی ہے۔
مرکز کے مطابق ایک مرد اور عورت کے درمیان شادی ہندوستان میں ایک مقدس رشتہ کے ساتھ ساتھ ایک رسم اور ایک سنسکار" ہے۔ مرکز نے 56 صفحات کے حلف نامے میں کہا کہ شادی کا ادارہ اس کے ساتھ ایک تقدس سے منسلک ہے اور ملک کے بڑے حصوں میں اسے ایک رسم، ایک مقدس اتحاد اور ایک سنسکار سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں، ایک حیاتیاتی مرد اور ایک حیاتیاتی عورت کے درمیان شادی کے تعلق کو قانونی طور پر تسلیم کرنے کے باوجود، شادی لازمی طور پر پرانے رسم و رواج، رسومات، طریقوں، ثقافتی اخلاقیات اور معاشرتی اقدار پر منحصر ہوتی ہے،"۔