آرٹیکل 370 میں ترمیم کے بعد جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ منسوخ کرنے کے مودی حکومت کے فیصلہ کے 2 ہفتہ کے بعد قومی دھارے کی مسلم جماعتوں نے کشمیرکے مسئلہ پر اپنے موقف میں تبدیلی لانے کافیصلہ کیا ہے۔
اب تک یہ مسلم جماعتیں مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ کشمیریوں کے ساتھ کھڑی نظر آتی تھیں مگر مودی حکومت کے اس فیصلہ کے بعد مسلم جماعتوں نے بھی حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
4 اگست کو اس تعلق سے مسلم جماعتوں کی پہلی میٹنگ ہوئی۔ پھر 22 اگست کو مختلف مسلم جماعتوں کے نمائندوں کی ایک میٹنگ جمعیة علماءکے دفتر میں ہوئی۔ جس میں دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث مولانا قاری محمد عثمان منصورپوری، سعادت اللہ حسینی امیر جماعت اسلامی ہند، مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی امیر جمعیت اہل حدیث ہند، مولانا محمود اسعد مدنی جنرل سکریٹری جمعیت علماء ہند، ڈاکٹر ظفر محمود چئیرمین آل انڈیا زکوة فاﺅنڈیشن، ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں چئرمین اقلیتی کمیشن دہلی، مولانا تنویر ہاشمی صدر جماعت اہل سنت کرناٹک، مجتبی فاروق جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت، کمال فاروقی رکن آل انڈیا مسلم پر سنل لاء بورڈ، ایم جے خان چیئرمین انڈیا کونسل آف فوڈ اینڈ ایگری کلچر، ایڈوکیٹ شکیل احمد، مولانا نیاز احمد فاروقی، مولانا شبیر ندوی، مہتمم مدرسہ اصلاح البنات بنگلور، مولانا معز الدین احمد، مولانا عبدالحمید نعمانی اور مولانا حکیم الدین نے شرکت کی۔ اس میٹنگ میں کشمیر کے سلسلے میں کافی بحث کے بعد یہ قرارداد منظور ہوئی۔
جمعیة کے دفتری ای میل پتہ سے اردو اور انگریزی میں قرارداد کی کاپی جاری کی گئی۔ جس میں کہا گیا کہ ”ملک کا استحکام اور سالمیت ہر شہری کا اولین فریضہ ہے، کسی بھی حال میں اس پر سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ دستور میں برابری، سب کے ساتھ انصاف اور حقوق انسانی کا مقصد بھی ملک کے استحکام و سالمیت کا تحفظ ہے۔
دستوری تقاضوں کو نظر انداز کرکے ہم ملک میں نہ امن و امان قائم رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی زبردستی وفاداری خرید سکتے ہیں۔
کشمیر میں دفعہ 370کو دستوری طور پر نافذ کیا گیا تھا اور اسے دستوری طور پر ہی ہٹایا جاسکتا ہے۔ اس وقت جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے اس پر اہم سوالات اور اعتراضات کئے گئے ہیں جو کہ فی الحال سپریم کور ٹ مین زیر سماعت ہیں۔ ہمیں سپریم کورٹ پر اعتماد کرنا چا ہئے اور اس کے فیصلے کے مطابق اقدام کرنا چاہئے۔ جب تک کہ یہ بات نہ واضح ہو جائے کہ دفعہ 370کا ہٹایا جانا پوری طرح دستوری تقاضے کے مطابق ہے یا نہیں۔ ہمیں کشمیری عوام کے بنیادی حقوق کی پاسبانی، امن و امان کے قیام اور عام زندگی کی بحالی کے لئے حکومت کو متوجہ کرنا چاہئے۔
کرفیو کا خاتمہ، مواصلات پر پابندی کا ہٹایا جانا اور طبی سہولیات کی فراہمی، تعلیمی اداروں کا آغاز فوری طور پر بحال ہونا ضروری ہے۔
ا س کے لئے حکومت جلد سے جلد اقدامات کرے۔ اسی کے ساتھ ہم موجودہ حالات میں نوجوانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مخالف طاقتوں، دشمنوں اور غیر ذمہ دار میڈیا کے بہکاﺅے میں آکر سوشل میڈیا پر بے بنیاد خبروں اور افواہوں کو نشر کرنے میں حصہ نہ لیں۔ ان کا یہ رویہ نہ ان کے لئے نہ ان کے خاندان اور نہ ان کی کمیونٹی کے لئے فائدہ مند ہے ۔“