انتہا پسندی اور دہشت گردی کے انسداد کے لیے انگریزوں کے زمانے سے چلے آرہے سیاہ قانون کے نام کئی بار تبدیل کیے گئے، ٹاڈا )ٹرورسٹ اینڈ ڈسریپٹیو ایکٹ، 1987) اور پوٹا (پریوینشن آف ٹرورزم ایکٹ، 2002) یو اے پی اے نے انسانی حقوق کی پیشانی پر اتنے بدنما داغ لگائے کہ حساس معاشرہ چیخ اٹھا ۔
ٹاڈا اور پوٹا تو مٹا دئے گئے مگر یو اے پی اے ایکٹ کو ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط کیا جارہا ہے۔
دہلی کا باشندہ عامر خان اس سیاہ قانون کا شکارہوا تھا ۔ 18 سال کی عمر میں دہلی پولیس نے دہشت گرد قرار دے کر اسے "اغوا" کیا۔ 1998 میں گرفتار ہوئے عامر کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں 14 برس لگ گئے۔
عامر خان جیسے درجنوں بے قصور مسلم نوجوان ہیں جو یو اے پی اے کا شکار ہوئے ہیں، ان کی زندگی کے سارے رنگ ختم ہو چکے ہیں ۔ عامر خان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف قانون ضروری ہے لیکن اس طرح نہیں کہ بے قصوروں کی زندگی بر باد ہوجائے ۔
یو اے پی اے قانون برسوں سے تنقید کے نشانے پر رہا ہے ۔ معاملہ بھیما کورے گاؤں کا ہو، یا مکہ مسجد اور مالیگاؤں جیسے بم دھماکوں کا، جس میں بڑی تعداد میں ایک خاص طبقہ کے نوجوانوں کو گرفتار کیا جاتا ہے اور ریاست ان کے خلاف جرم ثابت کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے۔ کشمیر سے ناگالینڈ تک اس قانون کی تباہ کاریوں کے قصے بھرے ہوئے ہیں، سول سوسائٹی اس کے خلاف احتجاج کر کے اپنا گلہ خشک کر چکی ہے۔
واضح ہوکہ پارلیمنٹ میں پیش کردہ یو اے پی اے ترمیمی بل 2019 کے مطابق اب کسی فرد کو دہشت گرد نامزد کیا جانا قانونی ہوگا، اس کے علاوہ این آئی اے کے ڈی جی کو دوران تفتیش ہی ملزم کے املاک کو ضبط کرنے کا حق حاصل ہوگا۔حالانکہ ایوان میں کانگریس نے ان ترمیمات کی مخالفت کی ہے۔