نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے صحافی اور آلٹ نیوز کے بانی محمد زبیر کی پولیس حراست کے خلاف دائر درخواست پر فی الحال کوئی راحت نہیں دی ہے۔ عدالت نے دہلی پولیس کو نوٹس جاری کیا ہے۔ جسٹس سنجیو نرولا کی بنچ نے دہلی پولیس کو دو ہفتے کے اندر اپنا جواب داخل کرنے کی ہدایت دی ہے۔ کیس کی اگلی سماعت 27 جولائی کو ہوگی۔ Mohammad Zubair did not get bail from Delhi high court
سماعت کے دوران زبیر کی طرف سے ایڈووکیٹ ورندا گروور نے کہا کہ 'پٹیالہ ہاؤس کورٹ کے چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ کا حکم غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'اسپیشل سیل کا پولیس تھانہ لودی کالونی ہے۔ IFSO کا کردار سائبر کرائم سے متعلق ہے۔ اس معاملے میں ضروری فریق دہلی حکومت ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'جس ٹویٹ سے گرفتاری ہوئی ہے وہ 2018 کا ہے۔ اس کی قانونی حد ختم ہو چکی ہے۔ کوئی بھی عدالت اس کا نوٹس نہیں لے سکتی۔' Delhi high court issues notice to Delhi police
عدالت نے کہا کہ پولیس کی حراست سنیچر کو ختم ہو رہی ہے۔ آپ ٹرائل کورٹ میں چیزیں کیوں نہیں رکھ رہی ہیں؟ تب گروور نے کہا کہ 'یہ ایک قانونی سوال ہے۔ ذاتی آزادی خطرے میں ہے۔ کیا اس میں حراست کی ضرورت ہے؟ کیا لیپ ٹاپ اور موبائل ضبط کیے جا سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ 'الیکٹرانک آلات کی ضبطی ایک پیٹرن بن چکا ہے۔' Advocate Vrinda Grover on Mohammad Zubair Case
گروور نے کہا کہ 'زبیر کا پہلا فون گم ہو گیا تھا، لیکن ان کا موجودہ فون ضبط کر لیا گیا۔ عدالت کا اسے تحویل میں بھیجنے کا حکم رازداری کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'سپریم کورٹ کے ارنیش کمار کیس میں گرفتاری سے متعلق دی گئی ہدایات کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: Delhi HC Issues Notice To Delhi Police: محمد زبیر کے معاملے میں ہائیکورٹ کا دہلی پولیس کو نوٹس
بتا دیں کہ 28 جون کو پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے زبیر کی پولیس حراست میں چار دن کی توسیع کر دی تھی۔ زبیر کو 27 جون کو گرفتار کیا گیا تھا۔ زبیر پر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام ہے۔ پولیس کے مطابق زبیر کو 27 جون کو پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا تھا۔ پوچھ گچھ کے بعد زبیر کو 27 جون کی شام کو گرفتار کیا گیا۔ اس کے بعد انہیں رات ہی براڑی میں ڈیوٹی مجسٹریٹ کی رہائش گاہ پر پیش کیا گیا جہاں ڈیوٹی مجسٹریٹ نے انہیں ایک دن کے لیے پولیس کی تحویل میں بھیجنے کا حکم دیا تھا۔ Who is Mohammad Zubair?