رامش صدیقی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'ہسپتال میں داخل ہونے سے کچھ روز قبل ہی انہوں نے مجھے ایک نصیحت کی تھی کہ انسان کو چیلنجز بناتے ہیں جب چیلنجنگ صورتحال آپ کے سامنے آئے تو اس کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں پہلا مایوسی کا راستہ، اس پر انسان امید کا دامن چھوڑ دیتا ہے اور دوسرا مثبت ہے جو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہتا اور مولانا وحید الدین نے ہمیشہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھا۔
رامش صدیقی نے بتایا کہ مولانا وحید الدین خان کی زندگی میں بہت سی پریشانیاں آئیں بہت چھوٹی عمر میں ہی وہ یتیم ہو گئے تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے یتیمی کو تعلیم کے آڑے نہیں آنے دیا اور بے مثال کوششیں کرتے ہوئے علمی سفر جاری رکھا۔
رامش نے مزید بتایا کہ مولانا مرحوم ہمیشہ اپنے آپ کو 'لائف لانگ لرنر' کہا کرتے تھے۔ انہوں نے جو کچھ بھی اپنی تحریروں اور کتابوں میں درج کیا اس پر خود پہلے عمل پیرا ہوئے اگر میں ان سادگی کی بات کروں تو مولانا وحید الدین خان کی زندگی سادگی کا نمونہ تھی وہ نہ صرف میرے نانا تھے بلکہ میرے جیسے ہزاروں لوگوں کے معلم اور رہنما بھی تھے۔
مولانا وحید الدین نے اپنی زندگی کے ہر ایک پہلو کو آخرت سے جوڑ دیا تھا وہ کہتے تھے کہ انسان کا مقصد آخرت ہونا چاہیے نا کہ یہ لافانی دنیا۔ وہ کہتے تھے کہ زندگی ایک بار ہی ملتی ہے اسے کسی حال میں بھی ضائع نہیں کرنا چاہیے۔