ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے کہ کوئی شاعر اپنے سامعین کو ان کے نام سے جانتا ہو اور جب وہ اپنا کلام پیش کریں تو سامعین کا نام لیکر انہیں مخاطب کریں۔ راحت اندوری میں یہ خصوصیت تھی وہ اپنے سامعین اور مداحوں کا نام لیکر کلام پیش کرتے تھے.
ان کا کہنا تھا کہ راحت اندوری اکثر ان کا نام لیکر مشاعروں میں شعر پڑھا کرتے تھے اور صرف ان کا ہی نہیں بلکہ دیگر سامعین کو بھی یہ شرف حاصل تھا وہ انہیں مخاطب کرتے ہوئے اشعار پڑھتے تھے.
ای ٹی وی بھارت کے نمائندے سے بات چیت کے دوران مسعود ہاشمی نے بتایا کہ راحت اندوری جب بھی دہلی آتے تھے تو میں ان سے ملاقات کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ مشاعرے میں تو وہ میرا نام لیکر شعر پڑھتے ہی تھے لیکن اس کے بعد وہ ملاقات کا شرف بھی بخشتے تھے.
مسعود ہاشمی بتاتے ہیں کہ ان ایک شعر جو انہیں کافی پسند ہے جسے وہ اکثر اپنی تقاریر میں استعمال کرتے ہیں۔ وہ اس طرح ہے کہ
ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ طنز نہ کر
ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھیں ہیں
مسعود ہاشمی کہتے ہیں کہ یہ شعر مسلمانوں کے تاریخی حیثیت سے روشناس کراتا ہے.