ETV Bharat / state

تبلیغی جماعت سے متعلق بمبئی ہائی کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم

بمبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد ڈویژن بنچ کے تبلیغی جماعت سے متعلق فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے ان حکومتوں کے لیے نصیحت آمیز قرار دیا ہے جو ملک کے وسیع ترمفاد کو نظر انداز کرکے فرقہ پرستوں کی ہاں میں ہاں ملاتی ہیں۔

mahmood madani praise mumbai high court judgement on tablighi jamaat
تبلیغی جماعت سے متعلق بمبئی ہائی کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم
author img

By

Published : Aug 23, 2020, 8:29 PM IST

مولانا محمود مدنی نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس ٹی وی نلوڈے اور جسٹس ایم جی سیولکر کی بنچ کا فیصلہ ایک ایسا صاف شفاف آئینہ ہے جس میں مرکزی و ریاستی حکومتیں اپنا چہرہ دیکھ سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں جن نکات پر روشنی ڈالی ہے ان سے فرقہ پرستی اور فاشزم کو مایوسی اور شکست ہو ئی ہے اور انصاف کے طلب گاروں کو فتح ملی ہے۔

واضح رہے کہ عدالت نے سرکار اور میڈیا کے کردار پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے تبلیغی جماعت کے کارکنان پر لگائے گئے سارے الزامات کو خارج کردیا اور سرکار سے پوچھا ہے کہ ”کیا ہم نے مہمانوں سے اپنی عظیم روایت اور وراثت کے مطابق سلوک کیا ہے؟ کووِڈ۔19 کی پیدا شدہ صورت حال میں ہمیں اپنے مہمانوں کے تئیں زیادہ حساس اور زیادہ قابل رحم ہو نا چاہیے، لیکن ہم نے ان کی مدد کرنے کے بجائے ان کو جیلوں کے اندر بند کردیا اور ان پر سفری قانون کی خلاف ورزی اور بیماری پھیلانے کا الزام لگا دیا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ”ویز ا ضوابط کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ پتہ چلتا ہے کہ ویزا کی حالیہ تجدید شدہ دستی مینویل کے تحت بھی غیر ملکیوں کے لیے مذہبی مقامات کی زیارت اور مذہبی مباحثے میں حصہ لینے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ بات غلط ہے کہ یہ غیر ملکی دوسرے مذہب کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کا کام کرتے ہیں۔ عدالت نے میڈیا کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے ان غیر ملکیوں کے خلاف بڑا پروپیگنڈا کھڑا کیا کہ یہی لوگ بھارت میں کرونا وائرس پھیلانے کے ذمہ دار ہیں اور اس طرح سے ان کو اذیتیوں میں مبتلا کرنے کی کوشش کی گئی۔

مولانا مدنی نے کہا کہ فیصلے میں عدالت نے ان امور کے ذریعہ نہ صرف سرکار کو جگانے کا کام کیا ہے بلکہ ملک کے وقار، اس کے آئین، اس کی عظمت اور عظیم روایات کے تئیں اس کے غیر ذمہ دار انہ رویے پر اسے خبر دار بھی کیا ہے۔ عدالت نے سرکار کو اپنی خامیوں کی اصلاح کی دعوت دی ہے جو خیر مقدم کے لائق ہے۔ اس کے پس منظر میں جمعیۃ علماء ہند مرکزی و ریاستی سرکاروں سے مطالبہ کرتی ہے کہ تبلیغی جماعت کے خلاف ملک میں جہاں بھی مقدمہ دائر ہے، وہ بلاتاخیر واپس لیا جائے اور جو لوگ جیلوں میں بند ہیں ان کو رہا کیا جائے۔ بالخصوص اترپردیش کی سرکار کو نصیحت حاصل کرنے کی ضرورت ہے جس کا رویہ انتہائی غلط اور انتقام پر مبنی رہا ہے، آج بھی الہ آباد کے نینی جیل میں تبلیغی جماعت کے ارکان بند ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند ان سب کی رہائی کا مطالبہ کرتی ہے اور جو لوگ طویل عرصے تک قید میں بند رکھے گئے، ا ن کو ذہنی اذیتیں دی گئیں ان کے لیے معقول معاوضہ کا بندوبست کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جمعیۃ علماء ہند نے ہمیشہ ملک کے آئین کے تحفظ کی ذمہ داری ادا کی ہے، وہ کسی بھی مظلوم پر ظلم ہوتے نہیں دیکھ سکتی۔ جب تبلیغی جماعت کا معاملہ سامنے آیا، تب سے آج تک جمعیۃ علماء سیاسی، سماجی اور قانونی ہر محاذ پر ان کی مدد کرتی رہی ہے اور کرتی رہے گی۔

مولانا محمود مدنی نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس ٹی وی نلوڈے اور جسٹس ایم جی سیولکر کی بنچ کا فیصلہ ایک ایسا صاف شفاف آئینہ ہے جس میں مرکزی و ریاستی حکومتیں اپنا چہرہ دیکھ سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں جن نکات پر روشنی ڈالی ہے ان سے فرقہ پرستی اور فاشزم کو مایوسی اور شکست ہو ئی ہے اور انصاف کے طلب گاروں کو فتح ملی ہے۔

واضح رہے کہ عدالت نے سرکار اور میڈیا کے کردار پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے تبلیغی جماعت کے کارکنان پر لگائے گئے سارے الزامات کو خارج کردیا اور سرکار سے پوچھا ہے کہ ”کیا ہم نے مہمانوں سے اپنی عظیم روایت اور وراثت کے مطابق سلوک کیا ہے؟ کووِڈ۔19 کی پیدا شدہ صورت حال میں ہمیں اپنے مہمانوں کے تئیں زیادہ حساس اور زیادہ قابل رحم ہو نا چاہیے، لیکن ہم نے ان کی مدد کرنے کے بجائے ان کو جیلوں کے اندر بند کردیا اور ان پر سفری قانون کی خلاف ورزی اور بیماری پھیلانے کا الزام لگا دیا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ”ویز ا ضوابط کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ پتہ چلتا ہے کہ ویزا کی حالیہ تجدید شدہ دستی مینویل کے تحت بھی غیر ملکیوں کے لیے مذہبی مقامات کی زیارت اور مذہبی مباحثے میں حصہ لینے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ بات غلط ہے کہ یہ غیر ملکی دوسرے مذہب کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کا کام کرتے ہیں۔ عدالت نے میڈیا کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے ان غیر ملکیوں کے خلاف بڑا پروپیگنڈا کھڑا کیا کہ یہی لوگ بھارت میں کرونا وائرس پھیلانے کے ذمہ دار ہیں اور اس طرح سے ان کو اذیتیوں میں مبتلا کرنے کی کوشش کی گئی۔

مولانا مدنی نے کہا کہ فیصلے میں عدالت نے ان امور کے ذریعہ نہ صرف سرکار کو جگانے کا کام کیا ہے بلکہ ملک کے وقار، اس کے آئین، اس کی عظمت اور عظیم روایات کے تئیں اس کے غیر ذمہ دار انہ رویے پر اسے خبر دار بھی کیا ہے۔ عدالت نے سرکار کو اپنی خامیوں کی اصلاح کی دعوت دی ہے جو خیر مقدم کے لائق ہے۔ اس کے پس منظر میں جمعیۃ علماء ہند مرکزی و ریاستی سرکاروں سے مطالبہ کرتی ہے کہ تبلیغی جماعت کے خلاف ملک میں جہاں بھی مقدمہ دائر ہے، وہ بلاتاخیر واپس لیا جائے اور جو لوگ جیلوں میں بند ہیں ان کو رہا کیا جائے۔ بالخصوص اترپردیش کی سرکار کو نصیحت حاصل کرنے کی ضرورت ہے جس کا رویہ انتہائی غلط اور انتقام پر مبنی رہا ہے، آج بھی الہ آباد کے نینی جیل میں تبلیغی جماعت کے ارکان بند ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند ان سب کی رہائی کا مطالبہ کرتی ہے اور جو لوگ طویل عرصے تک قید میں بند رکھے گئے، ا ن کو ذہنی اذیتیں دی گئیں ان کے لیے معقول معاوضہ کا بندوبست کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جمعیۃ علماء ہند نے ہمیشہ ملک کے آئین کے تحفظ کی ذمہ داری ادا کی ہے، وہ کسی بھی مظلوم پر ظلم ہوتے نہیں دیکھ سکتی۔ جب تبلیغی جماعت کا معاملہ سامنے آیا، تب سے آج تک جمعیۃ علماء سیاسی، سماجی اور قانونی ہر محاذ پر ان کی مدد کرتی رہی ہے اور کرتی رہے گی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.