نئی دہلی: سپریم کورٹ نے حجاب معاملے پر سماعت مکمل ہونے کے بعد جمعرات کو اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ جسٹس ہیمنت گپتا اور سدھانشو دھولیا کی بینچ نے کرناٹک ہائی کورٹ کے 15 مارچ کو کرناٹک کے پری یونیورسٹی کالجوں میں کلاسوں میں طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی کے ریاستی حکومت کے فیصلے کو برقرار رکھنے کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر 10 دن کی سماعت پوری ہونے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا۔ Supreme Court on Karnataka Hijab Row
بنچ کے سامنے کرناٹک حکومت کی نمائندگی سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کی جبکہ سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے، دیودت کامت، سلمان خورشید، حذیفہ احمدی، سنجے ہیگڑے اور دیگر درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہوئے۔ کرناٹک حکومت کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ 2021 تک کوئی بھی طالبہ حجاب نہیں پہنتی تھی، لیکن پی ایف آئی کی جانب سے سوشل میڈیا پر سماجی بے چینی پیدا کرنے کے لیے ایک تحریک شروع کی گئی تھی۔ اس پر درخواست گزار کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ احمدی نے دعویٰ کیا کہ ہائی کورٹ کے سامنے ایسی کوئی دلیل نہیں دی گئی تھی۔
تاہم بنچ نے مداخلت کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے میں اس کا حوالہ موجود ہے۔ پھر احمدی نے کہا کہ ہاں یہ تو ایک لائن میں تھا۔ دوے نے کہا کہ 'حجاب ایک ضروری مذہبی عمل نہیں تھا۔ حجاب ان کے لیے ضروری ہے جو زیادہ دین دار ہیں اور جو نہیں ہیں ان کے لیے یہ ضروری نہیں ہے۔ احمدی نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کی وجہ سے مسلم لڑکیاں تعلیم سے محروم ہوگئی ہیں، جبکہ ریاست کی ترجیح لڑکیوں کی تعلیم کو یقینی بنانا ہونی چاہیے۔'
یہ بھی پڑھیں: Hearing on Hijab Ban Issue حجاب پر پابندی لگانا، تعلیم کے بنیادی حق سے محروم کرنے کے مترادف
سبل نے آر ٹی آئی کے جواب پر مبنی 15 ستمبر کی سماعت کے دوران ایک رپورٹ کا حوالہ دیا تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ فروری میں کرناٹک حکومت کی جانب سے ایک نوٹیفکیشن جاری کرنے کے بعد حجاب پر پابندی کی وجہ سے 16 فیصد طالبات نے یونیورسٹی چھوڑ دی تھی۔
یو این آئی