سابق نائب صدر جمہوریہ ملک کی موجدہ صورتحال پر بات چیت کرتے ہوئے کہا 'پارلیمینٹ میں اچھے قانون تب پاس کیے جاتے ہیں جب حکومت کرنے والوں کے نجی خیالات کو الگ رکھا جائے۔
انہوں نے کہا 'آج کل پارلیمینٹ اور اسمبلی سیشن ایک رواج کی طرح ہو گئے ہیں'۔
انہوں نے مزید کہا 'ہماری طرف سے برے اور خراب قانون بنائے جاتے ہیں، جس کے بعد وہ ہائی کورٹ اور سپرم کورٹ میں جاتے ہیں، جس کے بعد سامنے یہ آتا ہے جو قانون سازوں کو کرنا ہوتا ہے وہ ججز کرتے ہیں۔ اور اس غلطی کو جلد دور کرنا ہو گا'۔
حامد انصاری کا کہنا ہے 'پارلیمنٹ کا سیشن پہلے 10 دن چلتا تھا جو اب سال میں 60 دن کر دیا گیا ہے، جبکہ باقی ممالک میں قانون ساز سال میں 120 سے 150 دن پارلیمیںٹ میں بیٹھتے ہیں'۔
مزید پڑھیے:-
'حکومت آر ایس ایس کا ایجنڈا ملک پر مسلط کررہی ہے'
مرکزی وزراء کے دورہ کشمیرکو اس بار ناکام نہیں ہونے دیا جائے گا
اورنگ آباد: این آر سی اور سی اے اے کے خلاف احتجاج
انہوں نے کہا 'پارلیمینٹ ایک ایسی جگہ ہے جہاں قانون اور دستور فریم کیے جاتے ہیں، لیکن آج کل سیشنز رواج بن چکے ہیں، جہاں قانوں ساز کچھ دن آتے ہیں، اکھٹے بیٹھتے ہیں اور چلے جاتے ہیں'۔
سابق نائب صدر جمہوریہ 'سنسد 2020' میں بولتے ہوئے کہا ' جمہوریت میں لوگوں کی رضامندی اور لوگوں کی خواہشات کا اظہار ضروری ہے اور مشاورتی عمل کو جمہوری نظام میں "منصفانہ اور آزاد" ہونا چاہئے۔