ETV Bharat / state

میر تقی میر کے یوم پیدائش پر تین سو سالہ جشن کی تقریب کا انعقاد

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Nov 24, 2023, 5:10 PM IST

Updated : Nov 25, 2023, 12:45 PM IST

میر تقی میر کی پیدائش سنہ 1723 میں آگرا میں ہوئی تھی جب کہ ان کی وفات 20 ستمبر سنہ 1810 میں لکھنؤ میں ہوئی۔ انہوں نے کم و بیش 18 ہزار اشعار لکھے ہیں۔ ان کی شاعری کا انداز ان اشعار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ Meer Taqi Meer Birth Anniversary

میر تقی میر کی یوم پیدائش کا تین سو سالہ جشن کی تقریب کا انعقاد
میر تقی میر کی یوم پیدائش کا تین سو سالہ جشن کی تقریب کا انعقاد
میر تقی میر کی یوم پیدائش کا تین سو سالہ جشن کی تقریب کا انعقاد

نئی دہلی: میر تقی میر کا شمار اردو کے ان شعراء میں کیا جاتا ہے جنہوں نے اردو شاعری کا آغاز کیا۔ ان سے پہلے اکثر شعراء فارسی میں اپنا کلام پیش کیا کرتے تھے۔ تاہم میر تقی میر نے اپنا کلام اردو زبان میں پیش کرنا بہتر سمجھا اور 6 دیوانوں پر مشتمل اپنا کلام اردو کے چاہنے والوں کے لیے چھوڑ گئے۔ ان کی شاعری میں غم کا احساس زیادہ نظر آتا ہے ۔ ہو بھی کیوں نہ آخر انہوں نے دہلی کو اپنی آنکھوں سے لٹتے ہوئے دیکھا قتل و غارت غری دیکھی شہر کو اجڑتے ہوئے دیکھا اسی لیے ان کی شاعری میں غم کا عنصر نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔

میر تقی میر کی یوم پیدائش کا تین سو سالہ جشن کی تقریب کا انعقاد

میر تقی میر کی عظمت اس بات سے بھی لگائی جا سکتی ہے کہ انہیں خدائے سخن کہا جاتا ہے، لیکن افسوس اس بات کا بھی ہے کہ انہیں آج بھلا دیا گیا ہے ۔اس موقع پر جشن ادب کے بانی کنور رنجیت چوہان سے بات کی جس میں انہوں نے بتایا کہ جس طرح سے میر تقی میر کو یاد کیا جانا چاہیے تھا۔ ویسا آج تک انہیں یاد نہیں کیا گیا انہوں نے سرکاری اداروں پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ میر تقی میر کے 300 سالہ جشن کے طور پر بھی ان کی شایان شان تقاریب کا اہتمام نہیں کیا گیا۔

وہیں دہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر خالد علوی نے کہا کہ میر تقی میر کی عظمت اس بات سے واضح ہوتی ہے کہ جب ایک مراٹھی زبان کے شاعر کو گیان پیٹھ آوارڈ سے نوازا گیا تو اس دوران انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ فرینچ اور انگریزی زبان کے شاعروں کو کیوں پڑھتے ہیں جب کہ ہمارے پاس تو میر تقی میر موجود ہیں۔

میر تقی میر کی پیدائش سنہ 1723 میں آگرا میں ہوئی تھی جب کہ ان کی وفات 20 ستمبر سنہ 1810 میں لکھنؤ میں ہوئی انہوں نے کم و بیش 18 ہزار اشعار کہے ہیں ان کی شاعری کا انداز ان اشعار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

الٹی ہو گئی سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا

ہوگا کسی دیوار کے سائے کے تلے میر
کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو

کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنوں
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے


دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے


اس کو فلک نے لوٹ کے برباد کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

قدم رکھتی نہ تھی متاع دل
سارے عالم کو میں دکھا لایا


دل مجھے اس گلی میں لے جاکر
اور بھی خاک میں ملا لایا


ابتدا ہی میں مر گئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا

یہ بھی پڑھیں:جامعہ میں پروفیشنل کریئر میں ضابطہ اخلاق کی اہمیت کے موضوع پر توسیعی خطبہ

میر تقی میر کی یوم پیدائش کا تین سو سالہ جشن کی تقریب کا انعقاد

نئی دہلی: میر تقی میر کا شمار اردو کے ان شعراء میں کیا جاتا ہے جنہوں نے اردو شاعری کا آغاز کیا۔ ان سے پہلے اکثر شعراء فارسی میں اپنا کلام پیش کیا کرتے تھے۔ تاہم میر تقی میر نے اپنا کلام اردو زبان میں پیش کرنا بہتر سمجھا اور 6 دیوانوں پر مشتمل اپنا کلام اردو کے چاہنے والوں کے لیے چھوڑ گئے۔ ان کی شاعری میں غم کا احساس زیادہ نظر آتا ہے ۔ ہو بھی کیوں نہ آخر انہوں نے دہلی کو اپنی آنکھوں سے لٹتے ہوئے دیکھا قتل و غارت غری دیکھی شہر کو اجڑتے ہوئے دیکھا اسی لیے ان کی شاعری میں غم کا عنصر نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔

میر تقی میر کی یوم پیدائش کا تین سو سالہ جشن کی تقریب کا انعقاد

میر تقی میر کی عظمت اس بات سے بھی لگائی جا سکتی ہے کہ انہیں خدائے سخن کہا جاتا ہے، لیکن افسوس اس بات کا بھی ہے کہ انہیں آج بھلا دیا گیا ہے ۔اس موقع پر جشن ادب کے بانی کنور رنجیت چوہان سے بات کی جس میں انہوں نے بتایا کہ جس طرح سے میر تقی میر کو یاد کیا جانا چاہیے تھا۔ ویسا آج تک انہیں یاد نہیں کیا گیا انہوں نے سرکاری اداروں پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ میر تقی میر کے 300 سالہ جشن کے طور پر بھی ان کی شایان شان تقاریب کا اہتمام نہیں کیا گیا۔

وہیں دہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر خالد علوی نے کہا کہ میر تقی میر کی عظمت اس بات سے واضح ہوتی ہے کہ جب ایک مراٹھی زبان کے شاعر کو گیان پیٹھ آوارڈ سے نوازا گیا تو اس دوران انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ فرینچ اور انگریزی زبان کے شاعروں کو کیوں پڑھتے ہیں جب کہ ہمارے پاس تو میر تقی میر موجود ہیں۔

میر تقی میر کی پیدائش سنہ 1723 میں آگرا میں ہوئی تھی جب کہ ان کی وفات 20 ستمبر سنہ 1810 میں لکھنؤ میں ہوئی انہوں نے کم و بیش 18 ہزار اشعار کہے ہیں ان کی شاعری کا انداز ان اشعار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

الٹی ہو گئی سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا

ہوگا کسی دیوار کے سائے کے تلے میر
کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو

کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنوں
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے


دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے


اس کو فلک نے لوٹ کے برباد کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

قدم رکھتی نہ تھی متاع دل
سارے عالم کو میں دکھا لایا


دل مجھے اس گلی میں لے جاکر
اور بھی خاک میں ملا لایا


ابتدا ہی میں مر گئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا

یہ بھی پڑھیں:جامعہ میں پروفیشنل کریئر میں ضابطہ اخلاق کی اہمیت کے موضوع پر توسیعی خطبہ

Last Updated : Nov 25, 2023, 12:45 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.