دہلی: نئی دہلی میونسپل کونسل (این ڈی ایم سی) کے ذریعہ جاری ایک عوامی نوٹس نے پوری ملت کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ اس نوٹس میں کہا گیا ہے کہ’این ڈی ایم سی‘ کو دہلی ٹریفک پولیس کی جانب سے ایک درخواست موصول ہوئی ہے جس میں سنہری باغ چوراہے کے آس پاس ٹریفک نظام کو بہتر بنانے کے لئے سنہری مسجد (درجہ تین، ہیریٹیج بلڈنگ) کوہٹانے کی درخواست کی گئی ہے جس پر کارروائی کرتے ہوئے ”این ڈی ایم سی‘ یونیفائڈ بلڈنگ بائیلاز 2016 کے تحت اس مسجد کو منہدم کرنے پر غور کرنے کی بات کررہی ہے۔
ہم ایسی شاندار تاریخی وراثت کے سلسلے میں ہونے والی کاروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ مذکورہ امور کے پیش نظر جماعت اسلامی ہند نے عدالت سے رجوع کیا ہے جس میں اس تاریخی اور مذہبی ورثے کے تحفظ کو یقینی بنانے کی گزارش کی ہے“ یہ باتیں نائب امیر جماعت اسلامی ہند ملک معتصم خاں نے میڈیا کو جاری اپنے بیان میں کہیں۔’ این ڈی ایم سی کی کارروائی پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”یہ مسجد تاریخی و ثقافتی حیثیت کی حامل اور دہلی کی 141 تاریخی مقامات کی فہرست میں شامل ہے اور اسے ایک مذہبی حیثیت بھی حاصل ہے۔
اس وقت کے جامع مسجد کے امام (موجودہ امام کے دادا) کا مسلمانان ہند کی جانب سے وقت کے وزیر اعظم نہرو کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا تھا جس میں مسجد کے تحفظ کی ضمانت دی گئی تھی۔اس کے علاوہ بھی مسجد کی حفاظت کے سلسلے میں بعض دیگر معاہدے بھی موجود ہیں۔ نیز اس مسجد کے تعلق سے 18 دسمبر 2023 کو دلی ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ آیا تھاجس میں یقین دہانی کرائی گئی کہ اس مسجد کو کسی طرح کا کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ عدالت کی اس یقین دہانی کے باوجود اس کو توڑنے کے لئے عوامی رائے طلب کرنا غیر آئینی ہے۔ پھر یہ کہ اس مسجد کا معاملہ ابھی عدالت میں زیر التوا ہے۔
لہٰذا حتمی فیصلہ آجانے تک ’این ڈی ایم سی‘ کو مسجد کے تعلق سے اپنی باتیں عدالت میں کہنی چاہئے، نہ کہ عوام سے رائے طلب کی جائے۔ اس سے عوام میں اضطرابی کیفیت پید ا ہوسکتی ہے۔اس کے علاوہ کونسل کا یہ عمل ’پلیس آف ورشپ ایکٹ 1991‘ کے بھی خلاف ہے جس میں تمام عبادت گاہوں کو 1947 کی ہیئت پر برقرار رکھنے کی ضمانت دی گئی ہے۔ ان تمام حقائق کو نظر انداز کرکے ’این ڈی ایم سی‘ نے جو عوامی رائے طلب کی ہے، جماعت اسے غیر آئینی سمجھتی ہے اور اسی وجہ سے اس نے عدالت کا دروازہ کھٹ کھٹاکر یہ درخواست کی ہے کہ وہ ’این ڈی ایم سی‘ کو مسجد کے خلاف کسی بھی ایسے اقدام سے باز رہنے کی ہدایت دے“۔
معتصم خاں نے کہا کہ”مسجد سے پیدا ہونے والے ٹریفک کے مسائل پر ’این ڈی ایم سی‘ کو عوام کی رائے لینے کے بجائے ماہرین سے صلاح و مشورہ لے کر متبادل حل کے امکانات پر غور کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر زیر زمین ٹنل یا ہیڈ فلائی اوور بناکر اس مسئلے کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ جہاں تک ٹریفک کا معاملہ ہے تو دہلی میں ہر روز کسی نہ کسی مذہبی، ثقافتی، تعلیمی، سیاسی اور کاروباری تقریبات کی وجہ سے ٹریفک جام رہتا ہے، تو کیا ان تمام سرگرمیوں کو ختم کردیا جائے؟ دنیا کا کوئی بھی ملک ٹریفک اور گاڑیوں کی آمدو رفت میں بہتری لانے کے لئے اپنے ورثے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرتا۔ کیونکہ تاریخی وراثتیں قیمتی سرمایا ہوتی ہیں“۔
یہ بھی پڑھیں: کنور دانش علی نے مسجد سنہری باغ معاملے میں ہیریٹیج کمیٹی کے چیئرمین کو لکھا خط
انہوں نے مزید کہا کہ ”جماعت اسلامی ہند کا ماننا ہے کہ سنہری مسجد، دہلی وقف بورڈ کی نگرانی اور اس کی تولیت میں ہے اور اس کی زمین پر ’این ڈی ایم سی‘ کا دعویٰ جو کہ عدالت میں زیر التوا ہے، غلط ہے۔ میڈیا رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ ’این ڈی ایم سی‘ نے جو عوام سے رائے طلب کی ہے، اس سلسلے میں لوگوں کی اکثریت نے مسجد کو منہدم کرنے کی مخالفت کی ہے۔ کسی تاریخی نشانی کو مٹانا افسوسناک ہے۔ اگر ہماری حکومت انصاف اور شفافیت پر یقین رکھتی ہے تو اسے ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کرنا چاہئے جو آئینی، تاریخی اور ثقافتی شبیہ کو خراب کرے“۔