ETV Bharat / state

Jamiat Ulema Hind کسی بھی طبقہ کے ساتھ ناانصافی اور امتیازی برتاؤ ناقابل برداشت،مولانا ارشدمدنی

اقومی دارلحکومت دہلی میں منعقد جمیعتہ کے اجلاس میں کہا گیا کہ ملک کے امن واتحاد اور یگجہتی کے لئے یہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے، فرقہ پرست طاقت کے ذریعہ آئین و قانون کی پامالی کی یہ موجودہ روش ملک کے جمہوری ڈھانچے کو تار تارکررہی ہے اور ساتھ ہی دوسرے اہم ملی اور سماجی ایشوز اور عصری تعلیم اور اصلاح معاشرہ کے طریقہ کار نیز دفتری و جماعتی امور پر تفصیل سے گفتگو ہوئی۔Meeting of Jamiat Ulema Hind in Delhi

author img

By

Published : Jan 8, 2023, 10:47 PM IST

مولانا ارشدمدنی
مولانا ارشدمدنی

مرکزی دفتری جمعیۃ علماء ہند کے مدنی ہال نئی دہلی میں جمعیۃ علماء ہند کی ورکنگ کمیٹی کا ایک اہم اجلاس صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کی صدارت میں منعقد ہوا، اجلاس کے شرکاء نے ملک کی موجودہ صورت حال پر غور و خوض کرتے ہوئے ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت، شدت پسندی، امن و قانون کی ابتری اور مسلم اقلیت کے خلاف بدترین امتیازی رویہ پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔Meeting of Jamiat Ulema Hind in Delhi

اجلاس میں مختلف معاملوں کو لیکر جمعیۃ علماء ہند کی قانونی امدادکمیٹی جو مقدمات لڑرہی ہے ان کی پیش رفت کا بھی جائزہ لیا گیا ان مقدمات میں آسام میں شہریت اورملک میں مذہبی مقامات کے تحفظ سے متعلق ایکٹ کوبرقراررکھے جانے والے زیرسماعت اہم مقدمات بھی شامل ہیں۔

آسام شہریت کے تعلق سے سپریم کورٹ نے جو این آرسی کروائی ہے اس کی بنیاد1971ہے، اگر خدانخواستہ 1951کو بنیادبنایا گیا تو ایک بارپھرآسام کے لاکھوں لوگوں کی شہریت پر خطرہ منڈلانے لگے گا۔ اس سلسلہ میں سپریم کورٹ 10 /جنوری کوسماعت کریگی، اس معاملہ میں جمعیۃ علماء ہند ایک اہم فریق ہے، جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر وکلاء کپل سبل،سلمان خورشید، اندرا جئے سنگھ اورایڈوکیٹ آن ریکارڈ فضیل ایوبی پیش ہونگے۔

اسی طرح عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کو چیلنج کرنے والی عرضداشت پر سپریم کورٹ 9 /جنوری کوسماعت کریگی، جمعیۃ علماء ہند پٹیشن داخل کرکے 1991 کے عبادت گاہ تحفظ قانون کی حفاظت کی عدالت سے درخواست کی ہے۔طویل غوروخوض کے بعد طے پایا کہ جمعیۃ علماء ہند کی مجلس منتظمہ کا اجلاس بہارکے دارالحکومت پٹنہ میں کیاجائے گا، اس کے لئے25/24/فروری کی تارخیں مقررکی گئی ہیں جبکہ 26 /فروری کو اجلاس عام منعقد ہوگا، ناداراورضرورت مند طلباء کو دی جانے والی اسکالرشپ کو طلباء کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ایک کروڑ سے بڑھا کر اس سال دوکروڑ روپے کردی گئی ہے۔توقع ہے کہ ہم اپنی مجوزہ بجٹ سے زیادہ ضرورت مند بچوں تک اپنی مالی تعاون پہنچا سکیں گے، اس موقع پر مجلس عاملہ سے خطاب کرتے ہوئے صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا ارشدمدنی نے کہا کہ ایک طرف جہاں مذہبی شدت پسندی کو ہوادینے اور عوام کے ذہنوں میں منافرت کا زہر بھرنے کا مذموم سلسلہ پورے زور و شور سے جاری ہے۔

وہیں دوسری طرف مسلمانوں کو تعلیمی اورسیاسی طورپر بے حیثیت کردینے کے خطرنا ک منصوبہ کابھی آغازہوچکاہے، مولانا مدنی نے کہا کہ پچھلے چند برسوں کے دوران ملک کی اقتصادی اورمعاشی حالت حددرجہ کمزورہوئی ہے اوربے روزگاری میں خطرناک حدتک اضافہ ہوچکاہے مگراس کہ باوجود اقتدارمیں بیٹھے لوگ ملک کی ترقی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں اور اس مہم میں جانبدارمیڈیا ان کاکھل کرساتھ دے رہاہے.

انہوں نے کہا کہ اقتصادی اور بے روزگاری کے مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے ہی مذہبی شدت پسندی کو بڑھاوادیا جارہا ہے، مولانا مدنی نے آگے کہاکہ مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ بنیادپر عوام کو تقسیم کرنے کا یہ کھیل ملک کو تباہ کردے گا، مذہب کا نشہ پلاکربہت دنوں تک حقیقی مسائل سے گمراہ نہیں کیا جاسکتا، روٹی،کپڑا اورمکان انسان کی بنیادی ضرورتیں ہیں اس لئے منافرت کی سیاست کو بڑھاوادینے کی جگہ اگر روزگارکے وسائل نہیں پیداکئے گئے، پڑھے لکھے نوجوانوں کو نوکریاں نہیں دی گئیں تووہ دن دورنہیں کہ جب ملک کی نوجوان نسل سراپ ااحتجاج ہوکر سڑکوں پر نظرآئے گی۔

آسام مدھیہ پردیش اور اتراکھنڈ ریاستوں میں مسلمانوں کو بے گھر کرنے کی منصوبہ بندی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ آسام میں سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنے کے الزام میں جہاں سو سو سال سے بسنے والی مسلم بستیوں کو اجاڑا جا رہا ہے۔ وہیں مدھیہ پردیش کے شہر اجین میں مہاکبھ کے پیش نظر ایک پارکنگ کی تعمیر کے لئے مسلمانوں کو بے گھر کر دینے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے، جبکہ اتراکھنڈ کے ہریدوار میں ریلوے ٹریک کو چوڑا کرنے کی آڑ میں 43 سو مسلم اورکچھ غیر مسلم خاندانوں کو بے گھر کردینے کی مہم شروع ہوچکی ہے ہر چند کے سپریم کورٹ نے عبوری اسٹے دیا ہے لیکن خطرہ بدستور برقرار ہے،

انہوں نے کہا کہ یہ کیا انصاف ہے کہ دہائیوں سے آبادلوگوں کو بے گھر کردیاجائے، انہیں مناسب معاوضہ بھی نہ دیاجائے اور ان کی بازآبادکاری کے لئے متبادل زمین بھی مہیانہ کی جائے، ملک میں تیزی سے پھیل رہے ارتداد کے فتنہ کو خطرناک قرار دیتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف اسے منصوبہ بند طریقہ سے شروع کیا گیا ہے،جس کے تحت ہماری بچیوں کو نشانہ بنایاجارہا ہے.

اگر اس فتنہ کو روکنے کے لئے فوری موثرتدبیر نہ کی گئی تو آنے والے دنوں میں صورتحال دھماکہ خیز ہوسکتی ہے، انہوں نے زوردیکر کہا کہ اس فتنہ کو مخلوط تعلیم کی وجہ سے تقویت مل رہی ہے اورہم نے اسی لئے اس کی مخالفت کی تھی، اورتب میڈیا نے ہماری اس بات کو منفی اندازمیں پیش کرتے ہوئے یہ تشہیر کی تھی کہ مولانا مدنی لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں، جبکہ ہم مخلوط تعلیم کے خلاف ہیں،لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں، مولانا مدنی نے کہاکہ ملت کی فلاح وبہبوداور ان کی تعلیمی ترقی کے لئے اب جو کچھ کرنا ہے ہمیں ہی کرنا ہے، مولانا مدنی نے کہاکہ ملک کی آزادی کے بعد ہم بحیثیت قوم تاریخ کے انتہائی نازک موڑپر آکھڑے ہوئے ہیں،ہمیں ایک طرف اگر طرح طرح کے مسائل میں الجھایا جارہا ہے تودوسری طرف ہم پر اقتصادی، سماجی، سیاسی اورتعلیمی ترقی کی راہیں بندکی جارہی ہیں، اس خاموش سازش کو اگر ہمیں ناکام کرنا ہے اور سربلندی حاصل کرنا ہے توہمیں اپنے بچوں اوربچیوں کے لئے الگ الگ تعلیمی ادارے خودقائم کرنے ہوں گے، انہوں نے آخرمیں کہاکہ قوموں کی تاریخ شاہد ہے کہ ہردورمیں ترقی کی کنجی تعلیم رہی ہے، اس لئے ہمیں اپنے بچوں کو نہ صرف اعلیٰ تعلیم کی طرف راغب کرنا ہوگابلکہ ان کے اندرسے احساس کمتری کو باہر نکال کر ہمیں انہیں مسابقتی امتحانات کے لئے حوصلہ دینا ہوگا اورہم اسی صورت سے اپنے خلاف ہونے والی ہر سازش کا منہ توڑجواب دے سکتے ہیں۔

جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا اجلاس تمام انصاف پسند جماعتوں اور ملک دوست افراد سے اپیل کرتا ہے کہ ردعمل اورجذباتی سیاست کی بجائے متحد ہوکر شدت پسند اور فسطائی طاقتوں کا سیاسی اور سماجی سطح پر مقابلہ کریں اور ملک میں بھائی چارہ، باہمی رواداری اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ہر ممکن جدوجہد کریں، اگر فسطائی جماعتوں اور ان کے حامیوں کا یہ خیال ہے کہ ان کے اس جبر و ظلم کے آگے مسلمان سرنگوں ہوجائیں گے اور وطن عزیز میں وہ ان کی غلامی اور جبر کی زنجیروں میں بندھ جائیں گے، تویہ ان کی خام خیالی ہے، ہندوستان ہمارا ملک ہے، اس ملک میں ہم پیداہوئے ہیں اور اس کی فضاؤں میں ہم پروان چڑھے ہیں، ہمارے آبا و اجداد نے اس ملک کو نہ صرف مضبوط و مستحکم کیا ہے بلکہ اس کے تحفظ و بقاکے لئے اپنی جانیں تک قربان کی ہیں، اس لئے ہم ملک میں مسلمانوں یا کسی بھی طبقہ کے ساتھ نا انصافی اور امتیازی برتاؤ کو برداشت نہیں کر سکتے۔

مزید پڑھیں:'قانون کے دائرے میں دینی احکام کی تکمیل کی جائے'

مرکزی دفتری جمعیۃ علماء ہند کے مدنی ہال نئی دہلی میں جمعیۃ علماء ہند کی ورکنگ کمیٹی کا ایک اہم اجلاس صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کی صدارت میں منعقد ہوا، اجلاس کے شرکاء نے ملک کی موجودہ صورت حال پر غور و خوض کرتے ہوئے ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت، شدت پسندی، امن و قانون کی ابتری اور مسلم اقلیت کے خلاف بدترین امتیازی رویہ پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔Meeting of Jamiat Ulema Hind in Delhi

اجلاس میں مختلف معاملوں کو لیکر جمعیۃ علماء ہند کی قانونی امدادکمیٹی جو مقدمات لڑرہی ہے ان کی پیش رفت کا بھی جائزہ لیا گیا ان مقدمات میں آسام میں شہریت اورملک میں مذہبی مقامات کے تحفظ سے متعلق ایکٹ کوبرقراررکھے جانے والے زیرسماعت اہم مقدمات بھی شامل ہیں۔

آسام شہریت کے تعلق سے سپریم کورٹ نے جو این آرسی کروائی ہے اس کی بنیاد1971ہے، اگر خدانخواستہ 1951کو بنیادبنایا گیا تو ایک بارپھرآسام کے لاکھوں لوگوں کی شہریت پر خطرہ منڈلانے لگے گا۔ اس سلسلہ میں سپریم کورٹ 10 /جنوری کوسماعت کریگی، اس معاملہ میں جمعیۃ علماء ہند ایک اہم فریق ہے، جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر وکلاء کپل سبل،سلمان خورشید، اندرا جئے سنگھ اورایڈوکیٹ آن ریکارڈ فضیل ایوبی پیش ہونگے۔

اسی طرح عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کو چیلنج کرنے والی عرضداشت پر سپریم کورٹ 9 /جنوری کوسماعت کریگی، جمعیۃ علماء ہند پٹیشن داخل کرکے 1991 کے عبادت گاہ تحفظ قانون کی حفاظت کی عدالت سے درخواست کی ہے۔طویل غوروخوض کے بعد طے پایا کہ جمعیۃ علماء ہند کی مجلس منتظمہ کا اجلاس بہارکے دارالحکومت پٹنہ میں کیاجائے گا، اس کے لئے25/24/فروری کی تارخیں مقررکی گئی ہیں جبکہ 26 /فروری کو اجلاس عام منعقد ہوگا، ناداراورضرورت مند طلباء کو دی جانے والی اسکالرشپ کو طلباء کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ایک کروڑ سے بڑھا کر اس سال دوکروڑ روپے کردی گئی ہے۔توقع ہے کہ ہم اپنی مجوزہ بجٹ سے زیادہ ضرورت مند بچوں تک اپنی مالی تعاون پہنچا سکیں گے، اس موقع پر مجلس عاملہ سے خطاب کرتے ہوئے صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا ارشدمدنی نے کہا کہ ایک طرف جہاں مذہبی شدت پسندی کو ہوادینے اور عوام کے ذہنوں میں منافرت کا زہر بھرنے کا مذموم سلسلہ پورے زور و شور سے جاری ہے۔

وہیں دوسری طرف مسلمانوں کو تعلیمی اورسیاسی طورپر بے حیثیت کردینے کے خطرنا ک منصوبہ کابھی آغازہوچکاہے، مولانا مدنی نے کہا کہ پچھلے چند برسوں کے دوران ملک کی اقتصادی اورمعاشی حالت حددرجہ کمزورہوئی ہے اوربے روزگاری میں خطرناک حدتک اضافہ ہوچکاہے مگراس کہ باوجود اقتدارمیں بیٹھے لوگ ملک کی ترقی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں اور اس مہم میں جانبدارمیڈیا ان کاکھل کرساتھ دے رہاہے.

انہوں نے کہا کہ اقتصادی اور بے روزگاری کے مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے ہی مذہبی شدت پسندی کو بڑھاوادیا جارہا ہے، مولانا مدنی نے آگے کہاکہ مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ بنیادپر عوام کو تقسیم کرنے کا یہ کھیل ملک کو تباہ کردے گا، مذہب کا نشہ پلاکربہت دنوں تک حقیقی مسائل سے گمراہ نہیں کیا جاسکتا، روٹی،کپڑا اورمکان انسان کی بنیادی ضرورتیں ہیں اس لئے منافرت کی سیاست کو بڑھاوادینے کی جگہ اگر روزگارکے وسائل نہیں پیداکئے گئے، پڑھے لکھے نوجوانوں کو نوکریاں نہیں دی گئیں تووہ دن دورنہیں کہ جب ملک کی نوجوان نسل سراپ ااحتجاج ہوکر سڑکوں پر نظرآئے گی۔

آسام مدھیہ پردیش اور اتراکھنڈ ریاستوں میں مسلمانوں کو بے گھر کرنے کی منصوبہ بندی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ آسام میں سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنے کے الزام میں جہاں سو سو سال سے بسنے والی مسلم بستیوں کو اجاڑا جا رہا ہے۔ وہیں مدھیہ پردیش کے شہر اجین میں مہاکبھ کے پیش نظر ایک پارکنگ کی تعمیر کے لئے مسلمانوں کو بے گھر کر دینے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے، جبکہ اتراکھنڈ کے ہریدوار میں ریلوے ٹریک کو چوڑا کرنے کی آڑ میں 43 سو مسلم اورکچھ غیر مسلم خاندانوں کو بے گھر کردینے کی مہم شروع ہوچکی ہے ہر چند کے سپریم کورٹ نے عبوری اسٹے دیا ہے لیکن خطرہ بدستور برقرار ہے،

انہوں نے کہا کہ یہ کیا انصاف ہے کہ دہائیوں سے آبادلوگوں کو بے گھر کردیاجائے، انہیں مناسب معاوضہ بھی نہ دیاجائے اور ان کی بازآبادکاری کے لئے متبادل زمین بھی مہیانہ کی جائے، ملک میں تیزی سے پھیل رہے ارتداد کے فتنہ کو خطرناک قرار دیتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف اسے منصوبہ بند طریقہ سے شروع کیا گیا ہے،جس کے تحت ہماری بچیوں کو نشانہ بنایاجارہا ہے.

اگر اس فتنہ کو روکنے کے لئے فوری موثرتدبیر نہ کی گئی تو آنے والے دنوں میں صورتحال دھماکہ خیز ہوسکتی ہے، انہوں نے زوردیکر کہا کہ اس فتنہ کو مخلوط تعلیم کی وجہ سے تقویت مل رہی ہے اورہم نے اسی لئے اس کی مخالفت کی تھی، اورتب میڈیا نے ہماری اس بات کو منفی اندازمیں پیش کرتے ہوئے یہ تشہیر کی تھی کہ مولانا مدنی لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں، جبکہ ہم مخلوط تعلیم کے خلاف ہیں،لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں، مولانا مدنی نے کہاکہ ملت کی فلاح وبہبوداور ان کی تعلیمی ترقی کے لئے اب جو کچھ کرنا ہے ہمیں ہی کرنا ہے، مولانا مدنی نے کہاکہ ملک کی آزادی کے بعد ہم بحیثیت قوم تاریخ کے انتہائی نازک موڑپر آکھڑے ہوئے ہیں،ہمیں ایک طرف اگر طرح طرح کے مسائل میں الجھایا جارہا ہے تودوسری طرف ہم پر اقتصادی، سماجی، سیاسی اورتعلیمی ترقی کی راہیں بندکی جارہی ہیں، اس خاموش سازش کو اگر ہمیں ناکام کرنا ہے اور سربلندی حاصل کرنا ہے توہمیں اپنے بچوں اوربچیوں کے لئے الگ الگ تعلیمی ادارے خودقائم کرنے ہوں گے، انہوں نے آخرمیں کہاکہ قوموں کی تاریخ شاہد ہے کہ ہردورمیں ترقی کی کنجی تعلیم رہی ہے، اس لئے ہمیں اپنے بچوں کو نہ صرف اعلیٰ تعلیم کی طرف راغب کرنا ہوگابلکہ ان کے اندرسے احساس کمتری کو باہر نکال کر ہمیں انہیں مسابقتی امتحانات کے لئے حوصلہ دینا ہوگا اورہم اسی صورت سے اپنے خلاف ہونے والی ہر سازش کا منہ توڑجواب دے سکتے ہیں۔

جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا اجلاس تمام انصاف پسند جماعتوں اور ملک دوست افراد سے اپیل کرتا ہے کہ ردعمل اورجذباتی سیاست کی بجائے متحد ہوکر شدت پسند اور فسطائی طاقتوں کا سیاسی اور سماجی سطح پر مقابلہ کریں اور ملک میں بھائی چارہ، باہمی رواداری اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ہر ممکن جدوجہد کریں، اگر فسطائی جماعتوں اور ان کے حامیوں کا یہ خیال ہے کہ ان کے اس جبر و ظلم کے آگے مسلمان سرنگوں ہوجائیں گے اور وطن عزیز میں وہ ان کی غلامی اور جبر کی زنجیروں میں بندھ جائیں گے، تویہ ان کی خام خیالی ہے، ہندوستان ہمارا ملک ہے، اس ملک میں ہم پیداہوئے ہیں اور اس کی فضاؤں میں ہم پروان چڑھے ہیں، ہمارے آبا و اجداد نے اس ملک کو نہ صرف مضبوط و مستحکم کیا ہے بلکہ اس کے تحفظ و بقاکے لئے اپنی جانیں تک قربان کی ہیں، اس لئے ہم ملک میں مسلمانوں یا کسی بھی طبقہ کے ساتھ نا انصافی اور امتیازی برتاؤ کو برداشت نہیں کر سکتے۔

مزید پڑھیں:'قانون کے دائرے میں دینی احکام کی تکمیل کی جائے'

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.