قلعہ معلہ کے شاعر شیخ محمد ابراہیم ذوق جنہیں مغلیہ سلطنت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے استاد ہونے کا شرف حاصل ہے۔
وہ سادہ سلیس زبان میں اشعار کہتے تھے، جس کی وجہ سے ناخواندہ افراد بھی ان کی شاعری کو پسند کرتے تھے۔ دیوان کے شاعر کی حیثیت سے ان کی زندگی عیش و عشرت میں گزری لیکن مرنے کے بعد ان کا مزار برسوں تاریکی میں گم رہا۔
اردو شعراء میں سر فہرست شاعر استاد ذوق نے اپنی بیشتر زندگی عالی شان محل میں گزاری، لیکن کسے معلوم تھا کہ جو شاعر زندگی بھر عیش و عشرت میں رہا مرنے کے بعد ان کا مزار پیشاب گھر میں تبدیل کر دیا جائے گا۔
جی ہاں معروف شاعر استاد ذوق کا مزار سنہ 2002 سے قبل ایک پیشاب گھر ہوا کرتا تھا، جسے اس وقت کے کاؤنسلر نے بنوایا تھا لیکن بعد میں اردو سے محبت کرنے والے افراد کی جدوجہد سے استاد ذوق کے مزار کی چہار دیواری کی گئی۔
علاقے کے لوگوں نے بتایا کہ استاد ذوق کے مزار کے باہر شام ہوتے ہی شرابیوں اور جواریوں کی محفل سجنے لگتی ہے اور گندگی اتنی کہ ناک پر ہاتھ رکھے بغیر مزار کے پاس سے گزرنا ممکن نہیں ہے۔
مزید پڑھیں:
دہلی: وزیر اعلی کا کل جماعتی اجلاس سے کئی اہم امور پر تبادلہ خیال
نبی کریم کے لوگوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ جب اس مزار کی چہاردیواری کی گئی اسی دوران کئی بار محفل سماع سجی اور قوالیوں کی آوازیں گونجی لیکن یہ محض ایک دو بار ہی ہوا اس کے بعد سے یہاں پر نہ تو قوالی کی آواز سنائی دی اور نہ ہی محفلیں سجتی نظر آئی۔