یہ سنہ 1960 کی بات ہے۔ اُس سال 'سال مشن آرمی' نامی ایک تنظیم نے آندھراپردیش کے گنٹور ضلع میں باپٹلہ میں جذام کے مریضوں کو مفت علاج و معالجے کی سہولیات فراہم کیں۔
ملک کے مختلف علاقوں کے جذام میں مبتلاء افراد علاج کے لئے گنٹور آتے تھے۔
جذام کے علاج کے لیے آنے والے مریضوں نے گنٹور میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا اور وہ سب زندہ رہنے کے لئے بھیک مانگنے لگے۔
ان کے مسائل دیکھ کر حکومت نے سنہ 1985 میں ان کے لیے مکانات تعمیر کیے اور ان کے رہائشی علاقے کو بیتھانی کالونی کہا جاتا ہے۔
یہاں تک کہ ابتداء میں یہاں رہنے والے جذام کے مرض میں مبتلا افراد کے بچوں نے بھی بھیک مانگنا شروع کر دیا تھا لیکن ان کی زندگی میں تبدیلی لانے کے مقصد سے 'بیتھانی کالونی بیگرس ایسوسی ایشن' نے اپنے یہاں کی خواتین اور لڑکیوں کو سلائی اور بنائی کے ہنر کی تربیت دینی شروع کی۔
جب بوائینما نامی خاتون نے انہیں دیکھا تو اس وقت تقریباً 200 مریض تھے۔ بوائینما نے ان کے بچوں کو پڑھانے میں ان کی مشکلات کو محسوس کیا۔ انہیں ایک پُنرواس کیندر فراہم کروا کر اس میں تقریباً 100 تا 150 کے قریب افراد کو بستروں کے گدّے بنانے کے لیے سامان مہیا کرا دیا۔
فی الحال 15 افراد ٹیلر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر ریٹائرڈ ہو چکے ہیں اور ان کے بچوں نے یہ کام سنبھال لیا ہے۔
ان لوگوں نے بیگ، کمبل اور باورچی خانے کے کپڑوں کی بُنائی کا کام شروع کیا تھا اور چند سالوں میں ان کے ہاتھوں کی بنی ہوئی اشیاء کی دنیا بھر میں تعریف کی جانے لگی۔
کچھ خواتین جذام کا بری طرح شکار تھیں اور زیادہ دن تک کام نہیں کر سکتی تھیں لیکن جب اس مرض سے متاثرہ کالونی کے کچھ افراد کی بہو اور بیٹیوں نے سلائی شروع کر دی تو پیداوار میں زبردست اضافہ ہوا۔
بُنائی یونٹ جو بہت چھوٹی سطح سے شروع ہوئی تھی، اب کالونی کے اراکین کے لیے آمدنی کا ذریعہ بن گئی ہے۔
بیتھنی کالونی کی خواتین رنگین گدے اور دیگر پُرکشش چیزوں کی سلائی اور بُنائی میں مہارت رکھتی ہیں۔ وہ روایتی 'نوار لوم' کا استعمال کرتے ہوئے چمکدار رنگ کے سوت کی دھاریوں کو بُنتی تھیں، اس کے بعد انہیں بیگ میں سِلا جاتا تھا، ان کے ڈیزائن ہاتھ سے تیار کیے گئے ہیں۔ وہ کمبل اور چادریں بنانے میں بہت ہنرمند اور تیز ہیں۔
روجا نامی خاتون نے کہا کہ 'ہم موجودہ رجحان کے مطابق روئی کے ایسے ہی بیگوں کی سلائی کرتے ہیں، بہت سی کمپنیاں ہم سے سامان کا مطالبہ کرتی ہیں اور ہم انہیں سامان فراہم بھی کرتے ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ 'ہمارا ایک ایسا ادارہ ہے جس میں تقریباً 50 اراکین کام کرتے ہیں۔ ہمیں بھوجن شالا سے بھی آرڈر ملتے ہیں اور ہم انہیں سامان مہیا کرتے ہیں۔
دیگر ایک خاتون نے کہا کہ 'میں پچھلے 16 سالوں سے یہاں کام کر رہی ہوں۔ ہم میں سے 50 لوگ ٹیپ کا کام کرتے ہیں جبکہ چار لوگ سلائی کا کام کرتے ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ 'سلائی سے لے کر ان کے معیار کی جانچ کرنے تک کا ہر کام یہاں کرتے ہیں۔ ہر ممبر روزانہ 10 بیگ کی سلائی کرتا ہے اور اس کے اسے 200 روپے ملتے ہیں۔'
یہ ہاتھ سے تیار شدہ مصنوعات مشہور کمپنیوں کے ذریعہ خریدی جاتی ہیں جو انہیں بیرون ممالک میں فروخت کرتی ہیں۔ یہ مصنوعات امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان کو برآمد کی جارہی ہیں۔
خود انحصاری نے ان خواتین کے اعتماد کو فروغ دیا ہے لیکن انہیں ابھی تک حکومت کی جانب سے کوئی مدد نہیں ملی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت کم از کم انہیں ہیلتھ کارڈ فراہم کرے۔
ان خواتین کے شوہر یومیہ مزدوری کرتے ہیں۔ ان کی آمدنی بہت کم ہے، اس لیے دونوں کی آمدنی سے کنبہ کے افراد کو زندگی کی کشتی چلانے میں مدد ملتی ہے۔
ایک خاتون نے بتایا کہ 'ہم پچھلے 20 سالوں سے یہاں کام کر رہے ہیں۔ نوار اور سلائی بیگ بُن رہے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں دہلی میں ٹیپ اور چمڑے کے ڈیزائن بنانے کی تربیت دی گئی ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'ہمیں حکومت کی جانب سے کوئی مدد نہیں ملی ہے۔ ہماری گزارش ہے کہ حکومت کچے سوت پر سبسڈی دے کر ہماری مدد کرے۔'
مذکورہ خاتون نے کہا کہ 'ہم اپنے بیگ بیرون ممالک برآمد ہوتے ہوئے دیکھ کر بہت خوش ہیں اور کتابوں میں چھپی ہوئی ان کے خوبصورت بیگ کی تصویر دیکھ کر فخر محسوس کرتے ہیں۔'
یہ خواتین اب اپنے بچوں کی تعلیم کے اخراجات خود اٹھانے کی اہل ہیں۔