قومی دارالحکومت دہلی میں جسٹس وبھو باکھرو کی بینچ نے اقبال آصف تنہا سے متعلق ڈی سی پی اسپیشل سیل، نئی دہلی کو ہدایت دی ہے کہ وہ عدالت کو بتائیں کہ تفتیش میں شامل پولیس اہلکاروں میں سے کس نے تحقیقات کی تفصیلات لیک کی۔
درخواست گزار کے مبینہ اعترافی بیان کو منظر عام پر آنے کے بعد سے دہلی پولیس بھی پریشان ہے کیونکہ اس سے تفتیش میں بھی رکاوٹ پیدا ہورہی ہیں۔
واضح رہے کہ مئی سنہ 2020 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے 24 برس کے طالب علم آصف اقبال تنہا کو فروری سنہ 2020 میں غیرقانونی سرگرمیاں (روک تھام) کے تحت شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے تشدد کے الزام میں دہلی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔
درخواست گزار نے شکایت کی ہے کہ الیکٹرانک میڈیا میں شائع ہونے والی مختلف خبروں سے وہ پریشان ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نے شمال مشرقی دہلی میں پیش آنے والے فرقہ وارانہ فسادات کو منظم کرنے اور بھڑکانے کا اعتراف کیا ہے۔
لہٰذا جامعہ کے طالب علم آصف اقبال تنہا کی جانب سے ایک درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ میڈیا ہاؤسز اور سوشل میڈیا اس معاملے میں تحقیقات سے منسلک حساس معلومات لیک کیے جانے پر جواب طلب کریں۔
عدالت میں یہ بھی بحث کی گئی کہ اس طرح کی خبریں نشر کرنے کا مقصد منصفانہ مقدمے کے حق کو ناجائز اور متعصبانہ کرنا ہے۔
درخواست گزار نے اپنی درخواست میں خصوصی طور پر اپیل کی ہے کہ جواب دہندگان (3 زی نیوز، 4 اوپیئنڈیا، 5 اور 6 اور مختلف دیگر میڈیا ایجنسیز) کو ہدایات جاری کی جائیں کہ جو خبر وہ چلا رہے ہیں اسے واپس لیں اور جو خفیہ معلومات انہوں نے ذرائع سے حاصل کی ہیں اس کے پیچھے کے ذرائع کی اطلاع دیں۔
درخواست گزار نے پٹیشن میں مزید کہا کہ جواب دہندہ نمبر دو کے عہدیداروں سے بدعنوانی کی تحقیقات کی جائے جو جواب دہندگان کی معلومات لیک کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
درخواست گزار نے عدالت کے روبرو یہ بھی عرض کیا ہے کہ پولیس عہدیداروں کے ذریعہ ان کو مجبور کیا گیا تھا کہ وہ کاغذات پر دستخط کریں اور تحویل میں رہتے ہوئے بیانات دیں۔
درخواست گزار نے مزید دعویٰ کیا کہ مبینہ انکشافی بیانات جو اطلاعات کا موضوع ہیں وہ رضاکارانہ طور پر نہیں دیے گئے تھے، اور اس وجہ سے وہ ثبوت کے طور پر ناقابل قبول ہیں۔
ان تمام باتوں کو سننے کے بعد آج جسٹس وبھو باکھرو کی بینچ نے زی نیوز سے اپنے ذرائع کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔