جب مغلیہ حکومت نے آگرہ شہر سے اپنا دارالحکومت منتقل کرنا چاہا تو مغل بادشاہ شاہجہاں نے دہلی کو دارالحکومت کے لیے منتخب کیا اور دہلی کے ایک حصہ کو فصیل بند شہر میں تبدیل کر دیا جس میں 7 دروازے بنوائے گئے۔
ان میں بیشتر دروازے نام کے مطابق سمت کی جانب کھلا کرتے تھے۔ تاہم ترکمان گیٹ کا دروازہ سمت سے مختلف ہے۔
حضرت شمس العارفین ترکمان شاہ بیابانی کی وفات 1240 میں ہوئی۔ تاہم جب شاہ جہان آباد بسایا گیا تو ترکمان گیٹ کا نام صوفی بزرگ کے نام سے رکھا گیا۔
شمس العارفین ترکمان شاہ بیابانی کا مزار آج بھی دہلی کے ترکمان گیٹ کے اندرونی حصہ میں واقع ہے۔ اس کا ذکر تاریخ کی مختلف کتابوں میں نمایاں طور پر ملتا ہے لیکن سنہ 1857 کے بعد ترکمان گیٹ کے باہر ایک اور مزار ترکمان شاہ بیابانی کے نام سے وجود میں آیا حالانکہ مورخ اس مزار کو جنگ آزادی کے شہیدوں کی قبریں بتاتے ہیں۔
مزید پڑھیں:
محمود پراچا کے دفتر پر چھاپہ ماری پر عدالت نے روک لگادی
صوفی بزرگ نے جب دہلی کے اس کونے میں سکونت اختیار کی تھی تب یہ ایک بیابان جنگل ہوا کرتا تھا اسی لیے ان کے نام سے بیابانی لفظ جڑ گیا۔ تاہم بعد میں جب دہلی کو شاہجہاں نے بسایا تو احتراماً باہر کے دروازے کو صوفی بزرگ کا نام دیا گیا۔