ETV Bharat / state

کیا دہلی پولیس صرف مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے؟ - دہلی پولیس کی خبر

دہلی فسادات میں مسلم اقلیت کو بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا اور ابھی اس کی تحقیقات جاری ہے۔ دہلی پولیس نے سینکڑوں گرفتاریاں کی ہیں اور بڑی تعداد میں مسلم سماجی کارکنان اور طلبہ و طالبات پر سنگین قوانین کے تحت الزامات بھی عائد کیے ہیں۔

has delhi police been targeting only muslims?
کیا دہلی پولیس صرف مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے؟
author img

By

Published : May 3, 2020, 10:36 AM IST

Updated : May 3, 2020, 6:09 PM IST

دہلی تشدد کی تحقیقات کے دوران اب تک جتنی بھی گرفتاریاں ہوئی ہیں، اس میں قدر مشترک کے طور پر یہ عنصر صاف دیکھا جا رہا ہے کہ زیر حراست افراد کا تعلق ایک خاص طبقہ سے ہے اور سب کا تعلق بھارت کی سب سے متنازع شہریت قانون کے خلاف پرامن مظاہروں سے ہے۔


قومی دارالحکومت دہلی میں واقع جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی جہاں شہریت قانون کے خلاف طویل مظاہرے چلے اور جس نے حکومت کو سب سے زیادہ چیلنج کیا۔ اس سے وابستہ دو طلبا میران حیدر اور صفورہ زرگار کو ایسے وقت میں گرفتار کیا گیا جب ملک میں کورونا کے بحران کے بعد ملک گیرلاک ڈاؤن شروع ہوا۔

has delhi police been targeting only muslims?
کیا دہلی پولیس صرف مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے؟

جامعہ کوآرڈنیشن کمیٹی کے ذریعہ دیے گئے ابتدائی دستاویزات کے مطابق میران حیدر وہ طلبا رہنما تھا جس نے کورونا کی وجہ سے مظاہرہ ختم کرانے کی پہل کی۔ اسے اپریل کے پہلے ہفتہ میں گرفتار کیا گیا اور سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

has delhi police been targeting only muslims?
کیا دہلی پولیس صرف مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے؟


کشمیر کی صفورہ زرگار جو کہ شہریت قانون مخالف مظاہروں میں قائدانہ کردار نبھا رہی تھیں، اس پر بھی سنگین دفعات لگائے گئے اور ایسے قوانین (یو اے پی اے) میں گرفتار کیا گیا جس کا استعمال دہشت گردوں کے لیے کیا جاتا ہے۔


ان دونوں طلباء کی گرفتاری کے بعد سول سوسائٹی اور انسانی حقوق تنظیموں کے کان کھڑے ہوئے۔ کئی این جی اوز کی ابتدائی اعداد وشمار میں یہ انکشاف ہوا کہ اس سے پہلے بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کی گرفتاری ہوئی جو ان مظاہروں میں اہم کردار نبھا رہے تھے۔ جیسے کانگریس کی تعلیم یافتہ مسلم رہنماؤں میں شمارعشرت جہاں کو فروری میں گرفتار کیا گیا۔ انڈیا اگینسٹ ہیٹ جس نے ہجومی تشدد کے خلاف سب سے زیادہ آواز اٹھائی، اس کے متحرک رکن خالد سیفی کو بھی گرفتار کیا گیا۔ ان پر مبینہ طور پر فسادات بھڑکانے اور اسلحہ رکھنے جیسے سنگین الزامات عائد کیے گئے۔ ان دونوں کا تعلق شمال مشرقی دہلی کے علاقوں میں ہو رہے شہریت قانون مخالف مظاہروں سے تھا۔

has delhi police been targeting only muslims?
کیا دہلی پولیس صرف مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے؟


تازہ گرفتاریوں میں ایک نام گل افشاں کا ہے، جو کہ بزنس مطالعات کی طالبہ (ایم بی اے)ہیں۔ اسے 9 اپریل کو یو اے اپی اے کے تحت حراست میں لیا گیا۔ یہ طالبہ بھی سیلم پور، جعفرآباد میں ہو رہے مظاہرات میں نہ صرف حصہ لے رہی تھی بلکہ وہاں بیٹھے مظاہرین کو آئین اور جمہوریت پر بنیادی لکچر بھی دیتی تھی۔ اس سے قبل جامعہ الیمومنائی ایسوسی ایشن کے سربرارہ شفاء الرحمان کو بھی گرفتار کیا گیا۔ ان پر بھی ملتے جلتے الزامات عائد کیے گئے۔

has delhi police been targeting only muslims?
کیا دہلی پولیس صرف مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے؟


الائنیس اگینسٹ سی اے اے، این آر سی کے ذریعہ جاری بیان کے مطابق’دہلی پولیس کے ذریعہ گرفتار شدہ لوگوں کی فہرست 900تک جا پہنچی ہے۔ جس کی فہرست اب تک جاری نہیں کی گئی۔ تاہم اہم نام چارج شیٹ یا پریس ریلیز کی شکل میں باہر آتے رہے۔ جن میں سب سے زیادہ مسلمان ہیں، ان کا تعلق ان مظاہروں سے ہے، جو شہریت قانون کے خلاف ہو رہے تھے۔


دہلی پولیس کی مبینہ طور پر جانبدارانہ کریک ڈاؤن پر ملک کی اہم شخصیات کی جانب سے تنقید کی گئی تودہلی پولیس نے غیرجانبداری کا دعوی کر دیا۔ مگر ان دعووں کو جھٹلانے والے حقائق پہلے سے ہی موجود نظرآئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشل جیسے اداروں نے 3 ماہ کی حاملہ صفورہ زرگار کی گرفتاری پر سخت احتجاج کیا، جسے پولیس نے پوری طرح نظر انداز کر دیا۔


سماجی حلقوں سے وزارت داخلہ کی شہ پر کاروائی کرنے والی دہلی پولیس کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ آخر اتنے بڑے انسانی بحران کے دوران پولیس کریک ڈاؤن کیسے کر سکتی ہے اور وہ بھی یکطرفہ۔ جس کا دہلی پولیس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دہلی پولیس نے ان تمام سوالات کو نہ صرف خاطر میں نہیں لیا بلکہ اپنی کاروائی کو جاری رکھتے ہوئے پے درپے ایسے قوانین کا استعمال کیا گیا جو دہشت گردوں کے لیے کیا جاتا ہے۔


انڈیا اگینسٹ ہیٹ کا کہنا ہے کہ ’حیرت انگیز طور پر دہلی پولیس نے ایسے لوگوں پر کوئی کارروائی نہیں کی جن کا تعلق حکمراں جماعت سے تھا اور جو کھلے عام اشتعال انگیز تقریر کر رہے تھے۔ جس میں کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کا نام خاص طور قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ دہلی پولیس نے جامعہ میں ’پرامن مظاہرین ‘پر جو بربریت کی، اس کا کسی بھی الزام میں ذکر تک نہیں۔ شمال مشرقی دہلی میں درجنوں مسلمان مارے گئے، گولیاں چلائی گئیں، درجنوں ویڈیو سامنے آئے، لیکن کسی پر کوئی کارروائی نہیں۔


مسلم مجلس مشاورت کے سربراہ نوید حامد اور آل انڈیا پالیٹیکل کاؤنسل کے چیئرمین ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے نشان زد کرتے ہوئے بتایا کہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والے مسلسل نشانہ پر ہیں۔ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان جو کہ اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ہیں، ان پرغداری کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ یہ مقدمہ ایک تسلسل کی شکل میں ان تمام افراد پر لگایا گیا جنہیں دہلی پولیس نے حراست میں لیا ہے۔ شرجیل امام جس نے آسام میں چکہ جام کرنے کا مشتبہ بیان دیا تھا، اس پر تقریباً 5 ریاستوں میں انسداد دہشت گردی قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا اور وہ بھی جیل میں ہے۔

جماعت اسلامی ہند کے سیکریٹری انجینئر سلیم نے کہا کہ ’ان ساری گرفتاریوں میں ایک چیز یکساں ہے اور وہ ہے مسلم آواز، سب کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا اور لاک ڈاؤن کو کور بنا کر استعمال کیا گیا۔‘

لیکن اب پولیس کی اس کھلی جانبداری پر سوالات کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ ٹوئٹر پر آج دوپہر سے کئی ٹرینڈ چلائے گئے۔


#ReleaseGulshifa
#DelhiPoliceJawabDo
#ReleaseJamiaActivists
#ReleaseSafooraZargar
#islamophobiaInIndia

ٹوئٹر پر دہلی پولیس کی جانبداری کو واشگاف کرتے ہوئے ہزاروں ٹوئٹ کیے گئے۔ کانگریس کے رہنما سلمان نظامی نے ٹوئٹ کرکے کہا کہ ”سماجی کارکن صفورہ جو کہ حاملہ ہے، رمضان میں جیل میں ہے۔ جبکہ کپل مشرا جیسے نفرت پھیلانے والے آزاد۔ مودی کے بھارت میں مسلمان ہونے کا جرم۔“


جے این یو کی طالبہ آفرین فاطمہ نے کانگریس اور حزب اختلاف کی خاموشی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ”ریاستی ایجنسیاں اور ہندتوا گروپ مسلمانوں کو بدنام کرنے اور ان پر حملہ کرنے میں مصروف ہے۔ تمام اپوزیشن پارٹیاں خاموش ہیں۔ مسلمان اس جنگ کو اکیلے لڑ رہے ہیں۔“ سوشل میڈیا پر پولیس کے رویہ پر سوالات کا طوفان امڈ پڑا ہے۔ کچھ ہی گھنٹوں میں ٹویٹ پیغامات کی تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی ہے۔ سب یہی سوال کر رہے ہیں کہ کیا دہلی پولیس لاک ڈاؤن کا فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے؟

دہلی تشدد کی تحقیقات کے دوران اب تک جتنی بھی گرفتاریاں ہوئی ہیں، اس میں قدر مشترک کے طور پر یہ عنصر صاف دیکھا جا رہا ہے کہ زیر حراست افراد کا تعلق ایک خاص طبقہ سے ہے اور سب کا تعلق بھارت کی سب سے متنازع شہریت قانون کے خلاف پرامن مظاہروں سے ہے۔


قومی دارالحکومت دہلی میں واقع جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی جہاں شہریت قانون کے خلاف طویل مظاہرے چلے اور جس نے حکومت کو سب سے زیادہ چیلنج کیا۔ اس سے وابستہ دو طلبا میران حیدر اور صفورہ زرگار کو ایسے وقت میں گرفتار کیا گیا جب ملک میں کورونا کے بحران کے بعد ملک گیرلاک ڈاؤن شروع ہوا۔

has delhi police been targeting only muslims?
کیا دہلی پولیس صرف مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے؟

جامعہ کوآرڈنیشن کمیٹی کے ذریعہ دیے گئے ابتدائی دستاویزات کے مطابق میران حیدر وہ طلبا رہنما تھا جس نے کورونا کی وجہ سے مظاہرہ ختم کرانے کی پہل کی۔ اسے اپریل کے پہلے ہفتہ میں گرفتار کیا گیا اور سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

has delhi police been targeting only muslims?
کیا دہلی پولیس صرف مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے؟


کشمیر کی صفورہ زرگار جو کہ شہریت قانون مخالف مظاہروں میں قائدانہ کردار نبھا رہی تھیں، اس پر بھی سنگین دفعات لگائے گئے اور ایسے قوانین (یو اے پی اے) میں گرفتار کیا گیا جس کا استعمال دہشت گردوں کے لیے کیا جاتا ہے۔


ان دونوں طلباء کی گرفتاری کے بعد سول سوسائٹی اور انسانی حقوق تنظیموں کے کان کھڑے ہوئے۔ کئی این جی اوز کی ابتدائی اعداد وشمار میں یہ انکشاف ہوا کہ اس سے پہلے بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کی گرفتاری ہوئی جو ان مظاہروں میں اہم کردار نبھا رہے تھے۔ جیسے کانگریس کی تعلیم یافتہ مسلم رہنماؤں میں شمارعشرت جہاں کو فروری میں گرفتار کیا گیا۔ انڈیا اگینسٹ ہیٹ جس نے ہجومی تشدد کے خلاف سب سے زیادہ آواز اٹھائی، اس کے متحرک رکن خالد سیفی کو بھی گرفتار کیا گیا۔ ان پر مبینہ طور پر فسادات بھڑکانے اور اسلحہ رکھنے جیسے سنگین الزامات عائد کیے گئے۔ ان دونوں کا تعلق شمال مشرقی دہلی کے علاقوں میں ہو رہے شہریت قانون مخالف مظاہروں سے تھا۔

has delhi police been targeting only muslims?
کیا دہلی پولیس صرف مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے؟


تازہ گرفتاریوں میں ایک نام گل افشاں کا ہے، جو کہ بزنس مطالعات کی طالبہ (ایم بی اے)ہیں۔ اسے 9 اپریل کو یو اے اپی اے کے تحت حراست میں لیا گیا۔ یہ طالبہ بھی سیلم پور، جعفرآباد میں ہو رہے مظاہرات میں نہ صرف حصہ لے رہی تھی بلکہ وہاں بیٹھے مظاہرین کو آئین اور جمہوریت پر بنیادی لکچر بھی دیتی تھی۔ اس سے قبل جامعہ الیمومنائی ایسوسی ایشن کے سربرارہ شفاء الرحمان کو بھی گرفتار کیا گیا۔ ان پر بھی ملتے جلتے الزامات عائد کیے گئے۔

has delhi police been targeting only muslims?
کیا دہلی پولیس صرف مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے؟


الائنیس اگینسٹ سی اے اے، این آر سی کے ذریعہ جاری بیان کے مطابق’دہلی پولیس کے ذریعہ گرفتار شدہ لوگوں کی فہرست 900تک جا پہنچی ہے۔ جس کی فہرست اب تک جاری نہیں کی گئی۔ تاہم اہم نام چارج شیٹ یا پریس ریلیز کی شکل میں باہر آتے رہے۔ جن میں سب سے زیادہ مسلمان ہیں، ان کا تعلق ان مظاہروں سے ہے، جو شہریت قانون کے خلاف ہو رہے تھے۔


دہلی پولیس کی مبینہ طور پر جانبدارانہ کریک ڈاؤن پر ملک کی اہم شخصیات کی جانب سے تنقید کی گئی تودہلی پولیس نے غیرجانبداری کا دعوی کر دیا۔ مگر ان دعووں کو جھٹلانے والے حقائق پہلے سے ہی موجود نظرآئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشل جیسے اداروں نے 3 ماہ کی حاملہ صفورہ زرگار کی گرفتاری پر سخت احتجاج کیا، جسے پولیس نے پوری طرح نظر انداز کر دیا۔


سماجی حلقوں سے وزارت داخلہ کی شہ پر کاروائی کرنے والی دہلی پولیس کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ آخر اتنے بڑے انسانی بحران کے دوران پولیس کریک ڈاؤن کیسے کر سکتی ہے اور وہ بھی یکطرفہ۔ جس کا دہلی پولیس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دہلی پولیس نے ان تمام سوالات کو نہ صرف خاطر میں نہیں لیا بلکہ اپنی کاروائی کو جاری رکھتے ہوئے پے درپے ایسے قوانین کا استعمال کیا گیا جو دہشت گردوں کے لیے کیا جاتا ہے۔


انڈیا اگینسٹ ہیٹ کا کہنا ہے کہ ’حیرت انگیز طور پر دہلی پولیس نے ایسے لوگوں پر کوئی کارروائی نہیں کی جن کا تعلق حکمراں جماعت سے تھا اور جو کھلے عام اشتعال انگیز تقریر کر رہے تھے۔ جس میں کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کا نام خاص طور قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ دہلی پولیس نے جامعہ میں ’پرامن مظاہرین ‘پر جو بربریت کی، اس کا کسی بھی الزام میں ذکر تک نہیں۔ شمال مشرقی دہلی میں درجنوں مسلمان مارے گئے، گولیاں چلائی گئیں، درجنوں ویڈیو سامنے آئے، لیکن کسی پر کوئی کارروائی نہیں۔


مسلم مجلس مشاورت کے سربراہ نوید حامد اور آل انڈیا پالیٹیکل کاؤنسل کے چیئرمین ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے نشان زد کرتے ہوئے بتایا کہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والے مسلسل نشانہ پر ہیں۔ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان جو کہ اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ہیں، ان پرغداری کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ یہ مقدمہ ایک تسلسل کی شکل میں ان تمام افراد پر لگایا گیا جنہیں دہلی پولیس نے حراست میں لیا ہے۔ شرجیل امام جس نے آسام میں چکہ جام کرنے کا مشتبہ بیان دیا تھا، اس پر تقریباً 5 ریاستوں میں انسداد دہشت گردی قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا اور وہ بھی جیل میں ہے۔

جماعت اسلامی ہند کے سیکریٹری انجینئر سلیم نے کہا کہ ’ان ساری گرفتاریوں میں ایک چیز یکساں ہے اور وہ ہے مسلم آواز، سب کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا اور لاک ڈاؤن کو کور بنا کر استعمال کیا گیا۔‘

لیکن اب پولیس کی اس کھلی جانبداری پر سوالات کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ ٹوئٹر پر آج دوپہر سے کئی ٹرینڈ چلائے گئے۔


#ReleaseGulshifa
#DelhiPoliceJawabDo
#ReleaseJamiaActivists
#ReleaseSafooraZargar
#islamophobiaInIndia

ٹوئٹر پر دہلی پولیس کی جانبداری کو واشگاف کرتے ہوئے ہزاروں ٹوئٹ کیے گئے۔ کانگریس کے رہنما سلمان نظامی نے ٹوئٹ کرکے کہا کہ ”سماجی کارکن صفورہ جو کہ حاملہ ہے، رمضان میں جیل میں ہے۔ جبکہ کپل مشرا جیسے نفرت پھیلانے والے آزاد۔ مودی کے بھارت میں مسلمان ہونے کا جرم۔“


جے این یو کی طالبہ آفرین فاطمہ نے کانگریس اور حزب اختلاف کی خاموشی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ”ریاستی ایجنسیاں اور ہندتوا گروپ مسلمانوں کو بدنام کرنے اور ان پر حملہ کرنے میں مصروف ہے۔ تمام اپوزیشن پارٹیاں خاموش ہیں۔ مسلمان اس جنگ کو اکیلے لڑ رہے ہیں۔“ سوشل میڈیا پر پولیس کے رویہ پر سوالات کا طوفان امڈ پڑا ہے۔ کچھ ہی گھنٹوں میں ٹویٹ پیغامات کی تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی ہے۔ سب یہی سوال کر رہے ہیں کہ کیا دہلی پولیس لاک ڈاؤن کا فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے؟

Last Updated : May 3, 2020, 6:09 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.